ذوالفقار مرزا کو قتل کر دیا جائے گا؟ یہ میں نے نہیں کہا۔ خود ذوالفقار علی مرزا نے کہا ہے کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ میں نے تو چند دن پہلے لکھا تھا کہ ’’صدر‘‘ زرداری اور ذوالفقار مرزا میں ’’صلح‘‘ ہونے والی ہے۔ صلح کو میں نے ’’الٹے کاموں‘‘ میں لکھا تھا۔ ’’صلح‘‘۔ ’’صدر‘‘ زرداری کو بھی ایسے ہی لکھتا ہوں۔ اْن کی صلحیں ایسی ہی ہوتی ہیں اور لڑائیاں بھی۔ دونوں ایک جیسی ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان سے شکررنجی ہوئی۔ نجانے شکر کون کھا گیا۔
رنج سے زرداری صاحب کچھ اور زرداری صاحب بن گئے۔ البتہ رنج جب دکھ میں ڈھلا تو ڈاکٹر بابر اعوان نے کالم لکھے اور پھر ایک مقبول تجزیہ کار کی طرح سامنے آئے۔ وہ ایک ٹی وی پر نجم سیٹھی سے بڑھ کر دو مختلف پروگرام کرتے ہیں۔ جعلی دانشور اور جینوئن دانشور میں کچھ تو فرق ہوتا ہے۔ دکھ اور غم بہرحال رنج کے مقابلے میں پازیٹو اور خوبصورت ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان اور ’’صدر‘‘ زرداری کے اختلاف کا کچھ پتہ نہ چلا پھر یہ انکشاف بھی خاموشی سے ہوا کہ ’’صدر‘‘ زرداری نے اعتراف کر لیا ہے۔ انہوں نے اختلافی نوٹ میں کچھ تو پڑھا ہو گا۔
ذوالفقار مرزا کی ’’صدر‘‘ زرداری سے لڑائی کا بھی ایک دنیا کو پتہ چلا اور پھر ’’صلح‘‘ کا بھی چرچا ہوا مگر مرزا صاحب کی خاموشی اب پھر ایک طوفان بن گئی ہے۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی ’’شمولیت‘‘ کے بعد طوفان بلاخیز؟ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ حیدرآباد میں نہیں جائیں گے۔ جہاں ان کے خلاف ’’صدارتی مقدمے‘‘ درج کئے گئے ہیں۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ مجھے پولیس کے ذریعے مروا دیا جائے گا۔ یہ سانحہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی صورت میں بھی ہو چکا ہے۔ تب اس کی بہن بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھی اور زرداری صاحب مرد اول تھے۔ یہ خطاب انہیں برجستہ بات کرنے والے بے باک پارلیمنٹیرین حافظ حسین احمد نے دیا تھا۔ یہ خاتون اول کامذکر ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کی ساس بیگم نصرت بھٹونے مرتضیٰ بھٹو کو سندھ کا وزیراعلیٰ بنائے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ مگر انہیں قتل کر دیا گیا اور نصرت بھٹو کو دبئی والے گھر میں عمر قید دے دی گئی۔ جبکہ بے نظیر بھٹو سے آصف زرداری کی شادی نصرت بھٹو نے کرائی تھی۔ شادی کے بعد نصرت بھٹو سے پیپلز پارٹی کی چیئرمین شپ بے نظیر بھٹو کو دلوائی گئی۔ اپنی شہادت سے پہلے ہر واقعے میں شہید بی بی شامل تھی۔ اب شریک چیئرمین خود ’’صدر‘‘ زرداری ہیں۔ شہید بی بی کو کسی نے مشورہ نہ دیا تھا کہ وہ زرداری صاحب کو شریک چیئرمین پیپلز پارٹی بنا دیتی۔ مگر آج شریک چیئرمین وہ خود بخود ہو گئے ہیں اور وہی سب کچھ ہیں۔ اور بے چارہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پاکستان آ ہی نہیں سکتا جبکہ چیئرمین خود اسے زرداری صاحب نے بنایا ہے۔ میری اس نوجوان سے گزارش ہے کہ وہ ابھی پاکستان نہ آئے۔ شہید بی بی نے ’’شریکے‘‘ پر قابو پا لیا تھا۔ تب فریال تالپور وغیرہ کہیں نظر نہ آتی تھی۔
ذوالفقار مرزا نے اپنے اس خدشے سے پہلے ’’صدر‘‘ زرداری کے دور حکومت میں حکمران اور سیاستدان بننے والی فریال تالپور کو بھی ’’را‘‘ کا ایجنٹ کہہ دیا ہے۔ وہ بی بی کی شہادت کے بعد بلاول کی پھوپھی بن گئی ہے۔ ذوالفقار مرزا نے سندھ کے مستقل گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کی برطرفی اور پھر گرفتاری کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان کے خلاف کئی مقدمے ابھی تک کراچی کے مختلف تھانوں میں درج ہیں۔ این آر او نے زرداری کو صدر بنایا اور عشرت العباد کو گورنر سندھ بنا دیا۔ عشرت العباد نے سیاست میں حقوق العباد کو منوا لیا ہے۔ انہوں نے جنرل مشرف ’’صدر‘‘ زرداری اور وزیراعظم نواز شریف پر نجانے کیا جادو کیا ہے۔ جادوگر تو لندن میں بیٹھا ہے مگر اب وہ ناراض ہے۔ رابطہ کمیٹی کی کیا جرأت ہے کہ ’’عیش و عشرت العباد‘‘ کے خلاف ایک لفظ کہہ سکے۔ یہاں مرزا صاحب اور ایم کیو ایم کی سوچ ایک ہے۔ فرق یہ ہے کہ رابطہ کمیٹی نے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ مرزا صاحب نے گرفتاری کا۔
ہر صوبے میں ن لیگ کا فرمان بردار اور وفادار گورنر ہے مگر سندھ میں کراچی اور ایم کیو ایم کا گورنر ہے۔ وہ بھی یقیناً نواز شریف کا فرماں بردار ہو گا اور وفادار بھی ہو گا۔ یہ بات الطاف حسین بھائی کو بھی پتہ ہو گی۔ دونوں کا اعتماد اس معاملے میں ایک ہے۔ عیش و عشرت العباد سے پوچھا جائے کہ چکر کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ عشرت العباد کیا چکر چلاتا ہے۔
ذوالفقار مرزا، رحمان ملک کا نام بھی لیتے ہیں۔ رحمان ملک سے ’’صدر‘‘ زرداری نے ابھی نجانے ’’کتنے‘‘ کام لینا ہیں۔ الطاف حسین کے ساتھ دوستی ملک صاحب کے بہت کام آئی ہے۔ وہ عمران خان اور نواز شریف کے درمیان ’’صلح‘‘ کرانے میں بھی بہت سرگرم رہا ہے اپنے ساتھ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو بھی ملا لیا۔ رحمان ملک کے گھر جہانگیر ترین بھی جاتے تھے۔ کسی نے ترین صاحب سے کہا کہ ابھی یہاں سے ایان علی اٹھ کر گئی ہے؟ رحمن ملک پر بلیک واٹر کا ایجنٹ ہونے کا الزام بھی ہے۔ انہوں نے تردید کی ہے۔ ہماری سیاست میں تردید اور تائید میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی سندھ حکومت نے ظلم و ستم نااہلی لوٹ مار بے حسی اور بے دردی کی انتہا کر دی وہاں اسماعیلی فرقے کے لوگوں کی بس میں ظلم ہوا مگر ’’صدر‘‘ زرداری قائم علی شاہ اور شرجیل میمن کو شرم نہ آئی۔ مشیر سندھ حکومت ایم پی اے شرمیلا فاروقی اپنے نام کی ہی لاج رکھتی۔ ایک وقت آتا ہے کہ ہر حکومت کے لوگوں پر کہ ان کے لئے شرمانے اور شرمندہ ہونے میں فرق مٹ جاتا ہے۔ جب وزیراعلیٰ سے استعفیٰ کا مطالبہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ پشاور کے سکول میں دہشت گردی کے بعد استعفیٰ کا مطالبہ کیوں نہ کیا گیا۔ سندھ میں دوسرے صوبوں کی مثال دی جاتی ہے اور کوئی سیاستدان دوسرے سیاستدانوں کے لئے کہتا ہے کہ اسے تو کچھ نہ کہا گیا تو میں نے کیا انہونی کر دی ہے۔ ہمارے ملک میں انہونی ہونی بن گئی ہے اور ہونی انہونی بن گئی ہے۔