لاہور (رپورٹ : فرخ سعید خواجہ) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم مضبوط مرکز کی بجائے مضبوط صوبوں کی علامت ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور بیورو کریسی میں موجود مخصوص مائنڈ سیٹ اختیارات کو صوبوں کی منتقلی روکنا چاہتا ہے۔ آئین اور پارلیمنٹ کی ملکیت عام لوگوں کے پاس ہونی چاہیے ورنہ آرٹیکل 6 کا حشر سب نے دیکھ لیا ہے۔ وہ کونسل آف پاکستان نیوز ایڈیٹر (سی پی این ای) کے یو این ڈی پی اور پنجاب ہائر ایجوکیشن کمشن کے اشتراک سے ارفع آئی ٹی سنٹر میں ’’18 ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں اختیارات کی وفاق سے صوبوں کو منتقلی کے ذریعے عدم مرکزیت اور اسکے معاشرے کے طبقات پر اثرات‘‘ کے موضوع پر تربیتی ورکشاپ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ سی پی این ای کے صدر مجیب الرحمن شامی، نائب صدر ایاز خان، صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن پنجاب رانا مشہود احمد خان، چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمشن ڈاکٹر محمد نظام الدین، سیکرٹری جنرل سی پی این ای ڈاکٹر جبار خٹک اور یو این ڈی پی کے نمائند ے امجد بھٹی نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں سینئر سیاستدانوں احسان وائیں ایڈووکیٹ، پیپلز پارٹی کے رہنما نوید چودھری، جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران، ڈاکٹر عمر سیف انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی سمیت دیگر وائس چانسلروں سینئر صحافیوں نے شرکت کی۔ تربیتی ورکشاپ کے پہلے دن تین سیشن ہوئے جن میں سابق بیورو کریٹ احمد محمود زاہد، ضیغم خان، مظہر عارف، عارف نظامی، شاہین قریشی، ڈاکٹر جبار خٹک نے اظہار خیال کیا۔ سوال و جواب کی نشست بھی ہوئی۔ رضا ربانی نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کا کریڈٹ کسی فردِ واحد نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی 27 ارکان پر مشتمل کیمٹی کے ارکان سمیت پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں اور انکے قائدین کو جاتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق 8 ویں ترمیم نے آئینی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی کی۔ پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدل دیا، اسکے نتیجے میں چھوٹے صوبوں سندھ، خیبر پی کے اور بلوچستان میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان محاذ آرائی کے ساتھ ساتھ صوبوں کے درمیان محاذ آرائی نے جنم لیا۔ قومیت پرست تحریکوں نے جنم لیا۔ بعض لوگوں نے کہا ماورائے آئین اور پہاڑوں پر جا کر عسکری جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ ان حالات میں گزشتہ پارلیمنٹ نے وفاق پاکستان کو بچانے کیلئے 18 ویں آئینی کا بیڑا اٹھایا۔ سیاسی قیادت نے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا۔ بلوچستان کے لوگ بھی ا تنے ہی محب وطن ہیں جتنے دوسرے صوبوں کے لوگ کسی کو اسلام آباد سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا ضروری نہیں۔ نصاب سلیبس بنانا صوبوں کا حق ہے، پنجاب سے بھگت سنگھ کی جدوجہد کو نصاب میں شامل کرلیا جائے تو کیا برائی ہے۔ 18 ویں ترمیم منظور ہوئے 5 سال ہوگئے ہیں مگر نہ ہماری حکومت نہ ہی موجود حکومت اس پر مکمل عملدرآمد کرسکی۔ 18 ویں ترمیم کے نفاذ میں مشکلات ضرور ہیں تاہم انہیں دور کرنے کیلئے کچھ تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں۔ تعلیم مرکز کے پاس صرف اسلام آباد تک ہونی چاہئے۔ آئین اور پارلیمنٹ کے دفاع کیلئے لوگوں کو اس میں اپنی شراکت داری محسوس ہونی چاہئے۔ صوبائی وزیر تعلیم پنجاب رانا مشہور احمد خان نے کہا کہ پنجاب میں شہبازشریف کی حکومت نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ لانے میں پہل کی۔ صوبے سے ضلعی حکومت کو اختیارات منتقل کرنے کیلئے ڈسٹرکٹ ہیلتھ کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ 1973ء کا آئین اتفاق رائے سے بنایا گیا اسے کوئی منسوخ کرنے کی جرات نہیں کر سکا۔ 18 ویں آئینی ترمیم بھی پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں نے اتفاق رائے سے منظور کی ہم نے ملک میں کئی تجربے کئے لیکن اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صوبوں کو مضبوط بنانا چاہئے۔ قائداعظمؒ کی جدوجہد آئینی تھی۔ گاندھی نے بھی پرامن جدوجہد کی بھگت سنگھ کا معاملہ الگ ہے وہ پرامن جدوجہد سے میل نہیں کھاتا ضروری نہیں کہ اسے نصاب میں شامل کیا جائے۔ عرب کلچر کے حوالے سے انہوں نے رضا ربانی کے فلسفے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا سعودی عرب سے رشتہ ہے۔ حکومتیں دستور کے مطابق چلنی چاہیں اور دستور کے مطابق جانی چاہئیں۔