پھر ایک بریکنگ نیوز آئی اور آن کی آن میں چہروں کی زندگی سے بھرپور گلابی رنگت موت کی زردی میں ڈھل گئی، زندگی کی رگوں میں خون جامد ہو گیا، فضا میں سسکارتے ماتمی نوحے کچھ یوں تحلیل ہونے لگے جیسے زخموں سے بھرے جسم پر اک اور تازیانہ لگنے پر کراہ حلق میں اٹک کر رہ جاتی ہے۔ آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں میں بچھڑنے والوں کا غم وجود کو نمکبار کرتا چلا گیا۔ سوچ کی تمام تر صلاحیتیں مزید خوف کی دبیز تہوں تلے کسمسانے لگیں اور پھر ڈبڈبائی ان گنت آنکھوں نے قیامت صغریٰ دیکھی۔ صفورا چورنگی غازی گوٹھ کا علاقہ ہراسِ ناتمام کی لسٹ میں آ چکا تھا۔ بھری دنیا میں تنہا رہ جانے والوں کو پیاروں کی جدائی نے دیوانہ بنا رکھا تھا، خود سے بے نیاز چیختے چلاتے، آہ و زاری کرتے، سینہ پیٹتے مرد، عورتیں پوری انسانیت کے وجود کو جھنجوڑ رہے تھے لیکن انسان نما وحشی سوچ رکھنے والوں میں انسانیت تھی کہاں؟ بیوگی کی چادر میں گھر جانیوالی عورتوں کے سروں سے سائبان کھسک رہا تھا، یتیم ہونے والی آنکھیں خالی ہوتی چلی جا رہی تھیں اور خلق خالق کائنات کی طرف بے بسی، بے چارگی اور اک نہ ختم ہونے والے شکوہ کی نظر سے دیکھ رہی تھی کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ فنا اور بقا پر اس قادر مطلق کو قدرت حاصل ہے۔ ہنستے مسکراتے گلاب چہرے پیلی سرسوں میں ڈھل گئے، مستقبل کے خواب دیکھنے والی آنکھیں ساکت کر دی گئیں۔ کوئی ماں اتنا بھی نہ کہہ سکی کہ بچے سکول سے واپس آئینگے تو کہنا ’’کھانا فریج میں رکھا ہوا ہے، میں اب جانے کب ملوں، بیٹا کھانا کھا لینا‘‘۔ کسی شوہر کو اتنا بھی موقع نہ ملا کہ کہہ دے ’’جماعت خانے پہنچا ہی نہیں واپسی پر سبزی کیا لائوں گا؟ آج تجھے دال پکانے کا بھی شاید وقت نہ ملے گا‘‘۔ یہ ایک صفورا چورنگی کی بات نہیں، یہ قبرستان ہماری دہلیزوں تک پھیل چکا ہے، موت ہمارے گھروں میں گھس بیٹھی ہے کیونکہ جب محافظوں کی وردیوں میں موت کے سوداگر معصوم نہتے انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگیں تو کھوج کا رخ غلط جانب موڑنے کیلئے پمفلٹ چھوڑنا ایک لمحہ لمحہ مرتی زندگی کے ساتھ بڑا مذاق ہے۔ پل بھر میں 45 جیتے جاگتے انسانوں کو کفن پہنا کر ہمیشہ کیلئے منوں مٹی کی گود میں اتار کر یہ کہہ دینا کہ ’’یہ کسی مسلمان کا کام نہیں ہو سکتا، ہم پڑوسیوں اور عالمی جارحیت کا شکار ہو رہے ہیں‘‘ ایک روزمرہ تاسف کا فقرہ ہمارے ہی حکمران طبقے اور حفاظت کرنے والے اداروں کو ’’زیب‘‘ دیتا ہے۔ شرمندگی کا پسینہ تک اب کسی کی پیشانی پر بوند بن کر نہیں ابھرتا۔ استحصال کرنیوالے اور سہنے والے اسے فرقہ وارانہ محرکات کے زمرے میں لا کر پھر صبر، برداشت، رواداری، اخلاص، درگزر اور پھر بھول جانے، معاف کر دینے کی منزل تک لائے جائیں گے لیکن قومی معاشرہ تنزلی میں ایسے سانحات انسانیت کے وجود کو ریزہ ریزہ کرتے چلے جا رہے ہیں اور ہم اپنے وجود کے بکھرے اعضا یکجا کرنے کیلئے اجتماعی سوچ و فکر، اقدار و روایت اور بدامنی کو فنا کرنے کیلئے شدت و انتہا کے جراثیموں کو اکارت کرنے کیلئے کوئی مثبت، انسانی خوشحالی کی راہ اپنانے پر من حیث القوم ابھی تک مائل نہیں۔ جب قومی معاشرتی سطح پر اخلاقی مذہبی گراہٹ تماتک تر حدیں پار کر جائے تو بدامنی، لاقانونیت، بے حسی اور ناانصافی ایمان ہی کو متزلزل کرنے لگتی ہے۔ کسی بھی دوسری سوچ، نکتہ نظر، طرز زندگی اور فکر کو فطرت کے خلاف اور خود کو فطرت کے عین مطابق گردانتے ہوئے اپنے تئیں سماجی طہارت کیلئے فرقہ وارانہ اختلاف اور اختلاف رائے کو نیست و نابود کرنے کا عمل یقیناً سماج میں مزید تفرقے کا سبب بنتا ہے۔ یہ تفریہ ہی ہے جو ایک اکائی کو بکھیر دیتا ہے۔
معاشرتی ارتقائی سفر کی تاریخ کو مرحلہ وار دیکھنا اور خود بھی جہالت سے روشنی تک کے سفر کیلئے پتھروں کے زمانے سے بھی کہیں پیچھے کھڑے ہو کر زینہ زینہ چلنا آج کی ترقی یافتہ دنیا کیلئے سماجی فساد کے سوا کچھ نہیں… اس لئے کہ مسائل دیکھتی آنکھوں کو نظر آ رہے ہیں!!! وجہ تک پہنچنا کوئی بڑی سائنس نہیں!!! تو پھر آخر ایسی کیا اندرونی بیرونی مجبوریاں ہیں کہ ان کے بارے میں اٹھنے والے سوالات پر مثبت مکالمے کی جگہ سطحی تجزیہ نگاریاں وقت کو دھیرے دھیرے ماضی بناتی چلی جاتی ہے۔ ایسی ’’ائرٹائم فیلنگز‘‘ حقیقی غاصب، ظالم مجرم کی نشاندہی ہی نہیں ہونے دیتیں۔ کسی بھی انتہائی اذیت بھرے واقعہ کو سرحد پار کی توسیع پسندانہ سوچ کے کھاتے میںدیتے ہیں۔اس میں شک نہیں قومی وحدت کیلئے ایک مثبت سوچ و فکر کے فروغ کیلئے شدتوں کی انتہا کو چھونے والوں کے تمام تر نظریاتی اعصابی جنون کے طاقتور بدست اندھے بھینسے کو گرفت میں لانے کیلئے انسانی فطری اجمالیات کو معاشرے میں جگہ دینا ہو گی۔ اقرائ… پڑھ کا کلمہ سماج میں عام کرنے کیلئے فنون لطیفہ کو اپنا پیرہن بننا ہو گا۔ دہشت گردی کی وارداتوں کو نفسیات اور سماجیات کے فلسفے کے ساتھ پرکھنا وقت کی اہم ضرورت ہو گیا ہے۔ آخر ہم کب تک حفاظتی اداروں کی ناک تلے بارود کی پھیلتی بو کو چین کے ساتھ تجارت کی راہداری پر ہمسایوں کے حسد کا شاخسانہ قرار دیتے رہیں گے؟ کسی بھی دوسری سوچ کو برداشت نہ کرنا اور صرف خود کو اللہ کا نمائندہ قرار دینے والی سوچ کو انسانیت کی قدر کرنیوالے نیزوں میں نہیں پرو سکتے، اس کیلئے مکالمے کی راہ کھولنی ہو گی۔ لطیف حساسیت کی مردہ رگوں کو جگانا ہو گا ورنہ شاید ہم یہ بھی دیکھیں کہ قادیانی پھر اہل تشیع اب آغا خانی اسماعیلی، ہو سکتا ہے ان اقلیتوں میں اکثریتی سنی فرقے کو بھی ’’طاقت‘‘ زبردستی اور شدت پسندی‘‘ سے اقلیت میں بدل دیا جائے!!