صدر ممنون حسین سربراہ مملکت کی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں۔ بڑی جرات اور حکمت سے بات کرتے ہیں۔ صدارت کے منصب کے مطابق شخصیت بڑی مدت کے بعد پاکستان کو نصیب ہوئی ہے۔ وہ نظریہ پاکستان لاہور کی ایک تقریب میں تشریف لائے تھے۔ انہوں نے جو باتیں کی تھیں اس سے اعتماد اور ولولہ تازہ پیدا ہوا تھا۔
آج کل پانامہ لیکس کا معاملہ بہت گھمبیر اور متنازعہ بنتا جا رہا ہے۔ حکومت کے لوگ بڑھ چڑھ کر نواز شریف کو بہت پاک صاف بنا کے پیش کرتے ہیں اور لوگوں پر اس کا الٹا اثر ہوتا ہے۔
یہ اس کا نتیجہ ہے کہ نواز شریف خود پارلیمنٹ میں اس حوالے سے پالیسی بیان دے رہے ہیں۔ ان کے جلد باز اور خوشامدی خیر خواہوں نے ان کی پارلیمنٹ میں تقریر کو قوم کی تقدیر بلکہ خود ان کی تقدیر بنا دیا ہے۔ صرف یہ تقریر سننے کے لئے عمران خان انگلستان سے گزشتہ روز پاکستان پہنچے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ نواز شریف میری تقریر بھی سنیں۔ طلال چودھری اور دانیال عزیز آج کل نواز شریف کے لئے صفائیاں پیش کرتے ہوئے تھکتے نہیں۔ جس سے عوام نواز شریف کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ یہ کام وہ چودھری پرویز الٰہی کے لئے بھی کرتے تھے۔ پرویز رشید وفا حیا کا آدمی ہے مگر اس کی طرف سے نواز شریف کے لئے پریس کانفرنسیں اب لوگوں کے لئے ناقابل برداشت ہو گئی ہیں۔ ان تینوں آدمیوں کو خاموش کرا دیا جائے تو لوگوں کا خیال نواز شریف کے لئے کچھ بہتر ہو جائے گا۔
صدر مملکت ممنون حسین نے اس حوالے سے اتنے وقار اور اعتبار سے بات کی کہ نواز شریف کے ساتھیوں کو اس سے سبق سیکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس کا معاملہ قدرت کی طرف سے اٹھا ہے۔ یہ تحفہ ہے تو پھر نواز شریف اسے قبول کرنے کو کیوں تیار نہیں۔ صدر صاحب نواز شریف کے نادان دوستوں کو بھی سمجھائیں جن سے یہ بوجھ اٹھایا نہیں جا رہا ہے۔ صدر صاحب کا اشارہ اس بات سے کس کی طرف ہے بلکہ کس کس کی طرف ہے۔ بڑے بڑے کرپٹ پکڑے جائیں گے۔ پتہ نہیں کون سے معاملات کئی خواتین و حضرات پانامہ لیکس کی عینک سے سامنے آئیں گے۔ وہ لوگ ابھی تو اطمینان سے بیٹھے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تنہا نواز شریف ہی گرفت میں آئیں گے۔مگر وہ خود تو انشاء اللہ گرفتار ہوں گے۔ وہ بھی چار چھ مہینے میں سخت لپیٹ میں آنے والے ہیں۔
بہت برجستگی اور بے ساختگی سے بات صدر محترم نے کی کہ وہ جو کرپٹ ہوتے ہیں ان کے چہروں پر بڑی نحوست ہوتی ہے۔ صدر صاحب کی اس بات سے کئی لوگ بار بار آئینہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے چہرے اتنے منحوس تو نہیں کہ لوگوں کو پتہ چل جائے مگر وہ اتنے منحوس ضرور ہیں کہ صاف پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے بڑے یقین سے فرمایا کہ حساب تو ہر ایک کا ہو گا۔ ملکی قومی دولت لوٹنے والے پکڑے جائیں گے بلکہ جکڑے جائیں گے۔
پانامہ لیکس کے حوالے سے انکشافات آتے رہیں گے۔ ہر کوئی اپنے گریبان میں جھانکے ورنہ اب لوگ ان کے گریبان میں جھانکیں گے۔ پچھلے 68برسوں میں بالخصوص 50برسوں سے لوٹ مار کا بازار پاکستان میں گرم ہے۔ اس گرما گرمی میں کئی خاندان بے تحاشا امیر ہو گئے ہیں۔ ان کے ناجائز روپوٹ سے بیرون ملک بنک بھر گئے ہیں۔ اور پاکستان میں لوگ بھوکوں مر رہے ہیں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے پانامہ لیکس کے لئے حکومت کا تجویز کردہ جوڈیشل کمشن بنانے سے انکار کر دیا ہے۔ اب شرمندگی اور درندگی نے زندگی کا چہرہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ کرپشن کے اس سمندر کو کھنگالنے کے لئے برسوں کی ضرورت ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ جو بھی کرنا ہے۔ اب کل پرسوں ہی کر لیں۔
غریبوں کے امیر نمائندوں نے لوگوں کو اتنا غریب کر دیا ہے کہ وہ بدنصیب ہو کے رہ گئے ہیں جتنے قرضے غربت کے نام پہ لئے گئے اس کا ہزارواں حصہ بھی جینوئن طریقے سے لگایا گیا ہوتا تو آج ملک امیر نہ ہوتا مگر غریب بھی نہ ہوتا۔ بدعنوانی اور کرپشن نے مل کر اس ملک کے رہنے والوں کو اتنا شرمندہ کیا ہے کہ وہ سوچتے ہیں۔ ہم زندہ ہیں یا شرمندہ ہیں یہ فیصلہ تو ابھی ہو گا مگر یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ حکمران سیاستدان کرپشن کے سرداران سب کے لئے درندگی نے زندگی اور شرمندگی کو رلا ملا دیا ہے۔
محترم صدر مملکت ممنون حسین بہت جذبے کے آدمی ہیں۔ نواز شریف کے پرانے دوستوں میں سے ہیں وہ گورنر سندھ بھی رہے ہیں۔ ان کی باتوں پر غور کرنا حکومت کے ہر اہم آدمی کا کام ہے مگر نواز شریف کو خاص طور پر اس کے لئے غور و فکر کرنا چاہئے۔ صدر صاحب نے بڑی قطعیت اور یقین محکم کے ساتھ فرمایا کہ اب پاکستان میں کرپشن نہیں چلے گی۔ یہ معاشرہ کرپشن فری ہو جائے گا جہاں چاروں طرف کرپشن کے گردوغبار نے زندگی کو دھندلا کے رکھ دیا ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ مختلف غلطیوں سے بہت سا قیمتی وقت اور ساکھ برباد ہوئی ہے۔ تعلیمی ادارے تباہ ہوئے ہیں۔ بجلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ لوڈشیڈنگ قوم کی بدقسمتی بن گئی ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا نام سیاست بن گیا ہے۔ 10 سال میں کوئی ڈیم نہیں بنا۔ کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا ہے۔ فنی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان منفی سوچ اور دہشت گردی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ دیامیر اور بھاشا ڈیم کی فزیبلٹی تیار تھی مگر کام نہیں کیا گیا۔
کیا اچھا جملہ صدر محترم نے فرمایا کہ پانامہ لیکس قدرت کی لاٹھی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے مگر اب اس لاٹھی کی آواز بھی آتی ہے جب یہ لاٹھی کسی کرپٹ ظالم بدعنوان اور نااہل حکمران پر برستی ہے۔ کرپٹ لوگوں کو سزا ملنی چاہئے۔ انہیں سزا ملنے تک ملک درست نہیں ہو گا۔ ماضی میں لڑکیوں کے رشتے بدعنوان اور بے ایمان لوگوں کو نہیں دئیے جاتے ۔ اب یہی رشتے پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔
ترقی اور سلامتی کے لئے پوری قوم پاک فوج کا ساتھ دے۔ پاک فوج نے بہت کچھ کیا ہے۔ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ قوم فوج کے ساتھ ہے۔ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف عام لوگوں کے لئے محبوب ترین شخصیت ہیں۔ لوگوں نے بہت امیدیں ان سے لگائی ہوئی ہیں۔ مگر کچھ کچھ ناامید بھی ہو رہے ہیں؟ وہ جانتے ہیں کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔
ہماری کولیگ کالم نگار بہت اہل اور اہل دل خاتون مسرت قیوم نے صدر ممنون حسین کو اپوزیشن لیڈر قرار دیا ہے۔ ان کا بہت خوبصورت جرات مندانہ کالم میرے دل کی آواز ہے اور آواز کے کئی راز ہوتے ہیں۔ حکومت میں سے کوئی اتنا بڑا شخص لوگوں کے دل کی باتیں زبان پر لائے تو یہ ایک کمال ہے۔ ہم صدر ممنون حسین کے لئے دل سے ممنون ہیں۔