جدید دور کے اس مجنوں سے کوئی پوچھے کہ جناب جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال کا یہ مطلب کب نکلتا ہے کہ آپ جہاں چاہیں منہ اٹھائیں اورچلے جائیں۔ اب یہ جو حرکت آپ نے کی ہے اور اس کے صلے میں جو کچھ آپ کی تواضع ہوئی ہے اس پر :
’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘
والی بات صادق آتی ہے۔
یہ فیس بک کی دوستی ایسے ہی چن چڑھاتی ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ لڑکی کے پردے میں کوئی لڑکا نہیں نکلا ورنہ چھترول کرنیوالوں میں وہ بھی شامل ہو سکتا تھا۔ انہوں نے مار کھاتے ہوئے ہوائی فائرنگ کرکے اپنی جان بچائی۔ معلوم نہیں یہ ریوالور لائسنس والا تھا یا نہیں۔ ویسے ملاقات لڑکی سے کرنے گئے تھے جناب تو یہ پستول کس خوشی میں ساتھ لیکر گئے تھے ۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ…؎
بات کرتے ہیں جب معشوق سے
کام لیتے نہیں بندوق سے
خدا جانے پڑھے لکھے اچھے بھلے لوگوں کی عقل کہاں گھاس چرنے چلی جاتی ہے اور وہ فیس بک پہ ہی لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد اور ہیر رانجھا کی جدید کہانیاں لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اس کا انجام ہمیشہ مرزا صاحباں والانکلتا ہے یقین نہ آئے تو وزیر اعظم کے پروٹوکول افسر کی کہانی پر ہی نظر ڈال لیں…
٭٭٭٭٭
نواز شریف کیا ویہلے ہیں کہ ان کا پارلیمنٹ کے ہر اجلاس میں آنا ضروری ہے‘ مشاہد اللہ خان
اگر صاحب ’’ویہلے‘‘ نہیں تو پھر یہ غیر ملکی دورے کس کھاتے میں شمار ہوں گے۔ ابھی چند روز قبل ہی خیر سے وزیر اعظم ترکی کے صدر کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے ترکی گئے تھے۔ کیا مصروف آدمی صرف شادی میں شرکت کے لیے اتنی دور جا سکتا ہے اور پھر وزیر اعظم اور انکے عملے کے آنے جانے کا کرایہ اور خرچہ حکومت پاکستان کے پلے پڑتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل خودمیاں صاحب کی نواسی کی شادی خانہ آبادی ہوئی اس میں کون سے ملک کے صدر یا وزیر اعظم نے شرکت کی، لے دیکر یہی موا مودی زبردستی آن پہنچا۔ وہ بھی اپنے ملک جاتے ہوئے اس کا جہاز پاکستان سے گزر رہا تھا کہ اس نے شاید کھڑکی سے رائے ونڈ میں جھلملاتی جگمگاتی روشنیاں دیکھ کر شادی کی تقریب میں شرکت کا ناگہانی کہہ لیں یا اچانک فیصلہ کر لیا اور میاں صاحب تو ویسے ہی مودی کی مہمان نوازی کے لیے ہمہ وقت تیار ملتے ہیں‘ انہوں نے فوراً اجازت دی یوں مودی مان نہ مان میں تیرا مہمان بن کر شادی میں شریک ہوئے۔اب مشاہد جی سے کون پوچھے کہ وزیر اعظم تو بنتا ہی اس ایوان سے ہے۔ تو اس کے اجلاس میں شرکت سے اجتناب کیوں؟ یہی ایوان کسی ممبر کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کرتا ہے۔ اس لیے اس ایوان کے اجلاسوں میں شرکت سے زیادہ دوری مناسب نہیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں پتہ ہی نہ چلے اور ایوان والے چپکے سے کسی اور کو ان کی جگہ بٹھا دیں اور میاں صاحب دیکھتے ہی رہ جائیں۔
طالبان سے مذاکرات کا اگلا دور نتیجہ خیز ہو گا: افغان سفیر
طرفہ تماشا ہے کہ ہمیں گلا پھاڑ پھاڑ کر اچھے اور برے طالبان کی تفریق پر قابل گردن زدنی قرار دینے والے اب کس منہ سے انہی طالبان سے بات چیت کا نتیجہ خیز دور شروع کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔وہ بھی بنا کسی اچھے اور برے کی تفریق کے۔ یہ اگر اصول پسندی ہے تو پھر بے اصولی کس چڑیا کا نام ہے ہمیں تو پتہ نہیں البتہ شاید افغانستان والوں کو اس کا علم ہو۔کیونکہ وہ ہمیشہ سے بے اصولی کی سیاست کرکے پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرتے رہے ہیں۔کل تک افغان صدر اشرف غنی بھارت اور امریکہ میں رو رو کر دہائی دیتے پھرتے نظر آ رہے تھے کہ پاکستان طالبان کے حقانی گروپ کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا۔ آج اسی اشرف غنی کی اپنی حکومت ’’ پخیرراغلے ‘‘کی تال پر انہی طالبان کے گلے مل رہی ہے۔کیا یہاں انہیں اچھے اور برے طالبان کا فرق یاد نہیں آتا۔کسی نے سچ کہا ہے ’’جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘‘ تمام تر مخالفتوں اور شکایتوں کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ برادرانہ رویہ رکھا۔مگر اب بہت ہو گیا ’’لوہار جانے انگار جانے‘‘۔افغانستان نے جو کچھ کرنا ہے جلد از جلد کرے اور اپنے 30لاکھ سے زیادہ مہاجر افغانیوں کو بھی جلد واپس بلائے اور انہی طالبان کی طرح گلے لگائے اور پاکستان کا پنڈا چھوڑے۔
٭٭٭٭٭
اب بدعنوانی نہیں چلے گی۔صدر ممنون
یکدم صدر مملکت کا یوں بیدار ہو جانا اور ملک میں کرپشن بدعنوانی اور لوٹ مار کیخلاف صف آرا ہونا بذات خود ایک تعجب خیز بات ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں تو صدارتی محل وہ سوتا محل کہلاتا ہے جہاں کسی فسوں کار جادوگرنی کا سحر کچھ اس طرح طاری ہے کہ جو بھی وہاں جاتا ہے محوِ خواب ہوجاتا ہے۔اب صدر مملکت وہاں اچانک جاگ کیسے گئے۔ کیا جادوگرنی کا سحر ٹوٹ گیا ہے۔
ویسے سچ تو یہ بھی ہے کہ اس محل میں بھیجا ہی ان افراد کو جاتا ہے جو لمبی نیند سونے کی تیاریاں کر رہے ہوتے ہیں مگر اب کی بار جو صدر بولے ہیں تو لگتا ہے: …؎
سو نہ پائیں گے اب گور غریباں والے
ان کی پازیب قیامت کی صدا رکھتی ہے
اس وقت جب پورے وطن عزیز میں پانامہ لیکس نے بہت سے پاجامے ڈھیلے اور بہت سے گیلے کر دیئے ہیں۔ بااثر نادیدہ قوتیں ، حزبِ مخالف کی سیاسی جماعتیں اور وردی والے بھی اونچے اور نیچے سروں میں چہ میگوئیاں کرتے نظر آ رہے ہیں ان حالات میں صدر بھی ان کی بولی بولنے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ سب ٹھیک نہیں‘ ’’معاملہ گڑ بڑ ہے‘‘۔
اس وقت تو صدارتی محل سے ایسی خطاباتی بمباری خطرناک ثابت ہو سکتی ہے وہاں تو حمایت نہ سہی سکوت کا ہی ماحول برقرار رہتا تو حکومت کو کچھ تسلی رہتی مگر اس وقت تو وہاں سے بھی:
’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘
کا سین چلتا نظر آرہا ہے۔
٭٭٭٭٭
وزیر اعظم کا پروٹوکول آفیسر اپنی فیس بک فرینڈ سے ملنے گھر میں گھس گیا، بھائیوں نے پھینٹی لگا دی
May 17, 2016