مستونگ خودکُش حملہ اور اس کا پس منظر

اسلام کے حوالے سے مختلف مذہبی سیاسی جماعتوں ،مسلکوں اور فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کی اپنی اپنی دینی تعبیر ، تفسیر اور دلیل ہوتی ہیں ۔اس طرح مختلف مذہبی مسالک وجود پذیر ہوتے ہیں ۔اور ہر ایک اپنے کو برحق اور دوسروں کو کم تر یا پھر گُمراہ سمجھتے ہیں ۔ مذہب کے تحفُظ خصوصاً حدیث اور فقہ حنفی کو بنیاد بنا کرتعلیم دینے کیلئے ۱۸۵۷ءمیں ضلع سہارنپور،دیوبند میں مولانا قاسم نانوتوی ، مولانا رشیداحمد گنگوہی اور مولانا امداداللہ مہاجر مکی کی قیادت میں ایک مدرسے کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔جس کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کو مذہبی تعلیم سے روشناس کرانا اور اغیار کے ثقافتی حملوں سے محفوظ رکھنا تھا۔اس مدرسے کی دیگر خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس نے مساجد کیلئے مولوی، امام، خطیب اور مفتی پیدا کرنے کیلئے نہ صرف قومی زبان اُردو کو ذریعہ تعلیم بنایا بلکہ سرکاری امداد کے بجائے عوامی چندے سے مالی ضروریات پورا کرنے کی راہ اختیار کر لی جس کے بدولت وہ مسلم کمیونٹی کو بہُت جلد اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئے اس کا مظاہرہ ۱۹۱۵ءمیں دیوبند کے فار غل التحصیل علماءپر مشتمل جمعیت الانصار کے سالانہ تقریب منعقد دیوبندمیں لگ بھگ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل اجتماع میں کیا گیا۔ اس غیر سیاسی اجتماع کو دیکھ کر جس سیاسی تحریک کا آغاز کیا گیا تھاوہ اس لیے بڑا تلخ تجربہ ثابت ہوا کہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے سلطنت عثمانیہ سے مدد لینے کیلئے جس حجاز کو سفر کیا اس میں شریف مکہ نے اُنہیں گرفتار کرکے انگریزوں کے حوالے کیا جہاں پانچ سالہ کالا پانی جیل کاٹ کرجب وطن واپس آ ئے تو مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کرکے عدم تشدُد کی بنیاد پر قومی سیاست کاآغاز کیا ۔اس خطے کی تاریخ میں ۱۸۵۷ءکی جنگ جس کو انگریز غدر بھی کہتے ہیں اس لیے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ یہ انگریزوں کے خلاف برادران وطن مسلم اور غیر مسلم دونوں کی مشترکہ آخری مسلح جدوجہد تھی۔اس میں ناکامی کے بعد باسیان ہند نے نئے حالات سے سمجھوتہ کرکے جدوجہد کے نئے پُرامن جمہوری راستے تلاش کرنے کی حکمت عملی اختیار کرلی تھی یہ اس سوچ کا مظہر تھا کہ جب ۱۹۱۹ءمیں جمعیت علماءہند بنی تو اس نے سیاست میں گا نگرس کا ساتھ دیا اور مولانا حُسین احمد مدنی کو تو علاقائی قوم پرستی کی پاداش میں بہُت سے مشکلا ت اور مخالفتوں کا سامنا کرنا بھی پڑا تھا۔ یاد رہے ۲۰۰۱ءمیں بھی مولانا اسعد مدنی نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران جامعہ خیرالمدارس ملتان میں ایک اجتماع سے خطاب کے دوران جب کہا تھاکہ تحریک دیوبند مولانا سندھی کے فکر کا تسلسل ہے تو پاکستان کے مذہبی اور صحافتی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا تھا ۔دو قومی نظریے کی مخالف ہونے کی بنا پر مولانا حُسین احمد مدنی قیام پاکستان کے بھی مخالف تھے۔لہٰذا پاکستان میںاس مسلک کے اکابرین کی اصل فکر کے بارے میں سرد مہری کا سماں ہے ۔ پاکستان کی مسلمان آبادی میں دیوبندی مسلک کے پیروکارجن کی تعداد ۱۵ فیصدہیں کی مرکزی تنظیم جمعیت علماءاسلام اپنے قیام سے اب تک درجن کے قریب گروپوں میں بٹ چکی ہے۔ اور اگر حروف تہجی کے لاحقہ ، یعنی س گروپ ، ف گروپ، ن گروپ، ق گروپ ، ح گروپ وغیرہ سے واضح کیا جائے تو اس کیلئے حروف تہجی ناکافی ہو جائیں گے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں مستونگ میں ڈپٹی چئیرمین سینٹ و مرکزی جنرل سیکرٹری جمعیت علما اسلام مولانا غفور حیدری کے قافلے پر خودکش حملہ ہو یا پھر ان کے اکابرین پر ہو نے والے دیگر پانچ خود کش و بم دھماکے ان میں دوسروں کے ساتھ خود ہم مسلک لوگ بھی شامل رہے۔ جس کی جانب جمعیت علما اسلام کے لیڈر مختلف موقعوں پر نشاندہی بھی کرتے رہے ہیں ۔ جمعیت علما اسلام کے مرکزی رہنما مفتی کفایت اللہ سے جب مولانا غفور حیدری پر ہونے والے خودکش حملہ کرنے والے کے بارے میں ایک صحافی نے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں فکر شیخ الہند سے منسلک رہنے کی پاداش میں نشانہ بنایا جارہا ہے ہم جمہوریت، آئین ،عدم تشدد اور پاکستان کے ساتھ ہیں ۔یاد رہے کہ عالمی استحصالی مقاصد کے تحت لڑی جانے والی سرد جنگ کے دوران جمعیت علما اسلام نہ صرف ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئی بلکہ ان کے اکابرین نے اُس جنگ کے بارے میں جہاد کا فتویٰ بھی دیا تھا ۔ جن کو دہشت گرد آج بھی برہان و دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔اشتراکی نظام کے مقابلے میں لڑی جانے والی استعماری جنگ میں بے لوث دینی خدمات سرانجام دینے والے اداروں کو جھونک دیئے تھے اس موقع پرستی کی بنا پر اب ملک میں دینی حلقوں کی جانب سے ہر مسئلے کا حل عقلی دلیل کے بجائے فتویٰ اورتشدد سے دینے کا خطرناک رُجحان اپنے آخری حدوئں کو چُھو رہا ہے۔جب سے سیاست میں ذاتی مفادات کے حصول کیلئے مذہب کو بیچ میں لانے کی روایت پنپ چکی ہے تب سے مسائل گھمبیر اور پیچیدہ ہوتے چلے گئے ہیں ۔ہمیں قاتلوں کو باہر تلاش کرنے کی بجائے اپنی بغلیں ٹٹولنی چاہئیں۔ ایسا نہ ہو کہ بچہ بغل میں ڈھونڈورہ شہر میں ، کے مصداق معاملہ ہو۔تشدد اور فتویٰ بازی کی انسدادی مہم کا آغاز اپنے گریبان میں جھانکنے اور اس کے خلاف خود میدان میں ڈٹ جانے سے ہی ممکن ہے۔ورنہ اللہ نہ کرے حادثہ مشال کی طرح کُچھ دنوں کے بعد لوگ یہ حادثہ بھی بھول جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن