ہم نے آج تک یہی دیکھا ہے کہ عشق ایک سٹیج ہے‘ اس کے دو اہم کردار لڑکا اور لڑکی ہوتے ہیں۔ عام زندگی، کسی ناول‘ ڈرامے یا فلم میں عشق انہی دو کرداروں کے سہارے ترقی کرتا اور پھلتا پھولتا ہے۔ عشق کے سائیڈ افیکٹس بھی ہوتے ہیں کہ کبھی کبھار عاشق خواب آور گولیاں کھا لیتا ہے‘ اپنے گلے میں رسی ڈال کر پنکھے کے ساتھ جھول جاتا ہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ صرف لڑکا لڑکی ہی عشق میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ دو ملک بھی ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ابھرے ابھی چند سال ہی ہوئے تھے۔ پاکستان ایک جوان گبرو تھا‘ اس کے گال سیب کی طرح لال تھے، آنکھوں میں زندگی اور زندہ دلی کی چمک تھی جیسے فرسٹ ایئر یا سیکنڈ ایئر کے سٹوڈنٹ ہوتے ہیں۔ پاکستان نے ایک دن امریکہ کو ایک حسینہ کی صورت میں رکشے سے اترتے دیکھا تو وہ اپنا تن من ہار گیا۔ پاکستان کے پاس دھن تو تھا ہی نہیں‘ دھن امریکہ کے پاس تھا۔ پاکستان نے اس سے قبل بھی کئی حسینائیں رکشوں‘ بسوں‘ ویگنوں اور تانگوں سے اترتے دیکھی تھیں لیکن امریکہ جیسی حسینہ کے آگے اپنے دل جیسی قیمتی متاع سے محروم ہوگیا۔ پاکستان نے اپنے دل کی کیفیت دیکھی تو اسے محسوس ہوا کہ اس کا دل ہیروشیما ہے‘ جس پر امریکی حسینہ نے ایٹم بم گرایا ہے۔ پاکستان کو اٹھتے بیٹھتے‘ سوتے جاگتے اور چلتے پھرتے ایک ہی خیال سوجھتا تھا، امریکہ کا۔ امریکی عشق سے پہلے پاکستان سیدھا کام پر جاتا تھا۔ اسے یہ خیال بھی آتا تھا کہ چین اس کے دو سال بعد آزاد ہوا ہے اور وہ سر نیہوڑائے محنت مزدوری میں مگن ہے۔ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے اور بھی کئی ممالک تھے جن کے لئے ”کام“ ایک خوبرو حسینہ تھی۔ پاکستان روزانہ صبح سویرے کام پر جاتا، کام سے واپس آتا‘ اچار یا پیاز کے ساتھ روٹی کھاتا، کنویں یا ہینڈ پمپ کا پانی پیتا‘ تھوڑی دیر قیلولہ کرتا اور پھر گھر سے باہر نکل جاتا اور ادھر ادھر گھومتا پھرتا۔ پاکستان نے جب امریکہ جیسی حسینہ کو رکشے سے اترتے دیکھا تو اسے قائداعظم کے فرمودات بھی بھول گئے۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والی عظیم ہستی علامہ اقبال کے اشعار بھی ذہن سے نکل گئے۔ اسے صرف رکشے سے اترنے والا امریکہ جو ایک حسینہ کے روپ میں تھا‘ اس نے ماڈرن لباس زیب تن کر رکھا تھا‘ ہاتھ میں پرس تھا جس میں پاکستان جیسے غریب لڑکے کو مقروض کرنے کیلئے ڈالر تھے۔ ویسے اس کے ہاتھ میں جہازی سائز کی کتابیں بھی تھیں۔ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ عشق چلتا رہا۔ ایوب دور میں بھی یہ عشق چلا۔ جنرل ضیاءکے دور میں امریکہ نے کھل کر کہا کہ آپ نے شاہ فیصل کے ساتھ مل کر ایٹم بم بنانے والے‘ اسلامی کانفرنس بلانے والے اور ہمیں سفید ہاتھی کہہ کر للکارنے والے لیڈر کو اپنے راستے سے ہٹا دیا ہے۔ عوام جدھر مرضی جائیں‘ اقتدار آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ دنیا چار دن کی ہے‘ مزے کریں۔ ملک اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو نہ ہو‘ ڈیم تعمیر ہوں نہ ہوں‘ صنعتیں قائم ہوں نہ ہوں‘ ملک ترقی کرے نہ کرے آپ کا کام ہے حکومت کرنا۔ آپ کے اقتدار کی گاڑی میں ہم پٹرول ڈلواتے رہیں گے اور وہ چلتی رہے گی۔ امریکہ کے ساتھ عشق عہد مشرف میں بے حد پروان چڑھا۔ جنرل مشرف نے سوچا کہ عاشق کو مشکلات سے نہیں گھبرانا چاہیے۔ انہوں نے دل میں عہد کیا کہ اگر امریکہ کے عشق میں پہاڑ بھی ٹوٹ پڑیں گے تو وہ گھبرائیں گے نہیں ثابت قدم رہیں گے۔ چنانچہ افغانستان کے پہاڑ ٹوٹے اور ان کے ٹکڑے پاکستان پر بھی پڑے۔ مشرف نے پالیسی بنائی تھی کہ ہم امریکہ کے ساتھ عشق کو نبھائیں گے تو ہندوستان ہمارے رعب میں رہے گا لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ ہم اس پالیسی کے تحت دہشت گردی کا ایسا شکار ہوئے کہ ”تن من میرا پرزے پرزے.... جیوں درزی دیاں لیراں“ فائدے میں بھارت رہا۔ اس نے امریکہ کو اڈے بھی نہ دیئے اور برا بھی نہ بنا اور اس نے امریکہ سے رس ملائیاں کھائیں اور ساتھ ساتھ رننگ کمنٹری بھی کرتا رہا کہ پاکستان بہت بڑا دہشت گرد ہے۔ جنرل اسلم لیگ نے درست کہا ہم استعمال بھی ہوئے ار امریکی ایماءپر دہشت گردی کا شکار بھی ہوئے۔ امریکہ ہمارے لئے نت نئے دشمن بنا رہا ہے۔ 70 سال ہوگئے کہ امریکہ کی سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ استعمال پاکستان کو کیا‘ شہ ہندوستان کو دی کہ اسے افغانستان کے ذریعے نقصان پہنچاﺅ۔ ہم امریکہ کے کہنے پر دوست اور دشمن بناتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ سے صاف صاف کہا جائے کہ امریکہ! تو نے مسلمان ممالک کو تباہ وبرباد کردیا ہے۔ یکے بعد دیگرے سب کی باریاں لگا رکھی ہیں‘ ہمیں افغانستان‘ ایران اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ دوستی رکھنی چاہیے اور دوست دشمن بنانے کا اختیار اپنے پاس رکھنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو اقتدار کیلئے اس حد تک نہیں لڑنا چاہیے کہ امریکہ فائدہ اٹھا جائے۔