تالاب کے کنارے تین دوست ہنس راج ،، پیلی کن اور ایک کچھوا رہتے تھے۔ یہ تینوں یہاں کے اصل باشندے نہیں تھے۔ زبردست سیلاب کے نتیجے میں بہتے اس تالاب تک پہنچے تھے، پھر اس کی خوبصورتی دیکھ کر یہیں بس گئے۔تینوں دوست دن بھر کھیلتے، کودتے، کھاتے پیتے اور شام کو تھک کر ایک دوسرے کے قریب سنہری ریت پر سو جاتے۔ البتہ گرمی کے موسم میں ان کو کچھ پریشانی ہوتی۔ تالاب کا پانی سوکھ کر ایک چوتھائی رہ جاتا اور اس وجہ سے مچھلیاں اور آبی کیڑے مکوڑے بھی تھوڑے رہ جاتے۔ اکثر انہیں خالی پیٹ ہی سونا پڑتا۔ برسات کے موسم میں ہر طرف جل تھل ہو جاتی۔ کھانے پینے میںبہتات ہو جاتی۔ ایک سال جب برسات کا موسم آیا تو بن برسے گزر گیا۔ تینوں دوست کھانے کے عذاب میں مبتلا ہو گئے۔ اب اس تالاب سے ہجرت کرنا لازمی ہو گیا تھا کیونکہ موت دبے پائوں ان کی طرف بڑھتی چلی آ رہی تھی۔ تب راج ہنس نے کہا… میں نے یہاں سے 10، 12 میل دور ایک بہت بڑا تالاب دیکھا ہے جو آج بھی پانی سے لبالب بھرا ہوا ہے۔ چلو وہیں چلتے ہیں اور ایک نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔ پیلی کن بولا…لیکن اس میں ایک مشکل ہے ہم دونوں کے لئے وہاں پہنچنا کوئی بڑی بات نہیں ہے مگر ہمارا دوست کچھوا…! ! کیا ہم اسے چھوڑ دیں؟ یہ تو انتہائی خودغرضی والی بات ہو گی۔ ہاں! یہ تو ہے۔ راج ہنس نے آہستہ سے شکست خورد لہجے میں کہا کچھ دیر سوچنے کے بعد ہنس راج نے ایک تجویز پیش کی، ہم کسی درخت کی ایک لمبی سے شاخ لیتے ہیں۔ اپنی اپنی چونچوں میں دونوں طرف سے پکڑتے ہیں اور ہمارا دوست کچھوا اس شاخ کو درمیان سے پکڑ کر لٹک جائے۔ بس دس پندرہ منٹ کی تو بات ہے ہم تینوں اطمینان سے اس بڑے تالاب تک پہنچ جائیں گے۔ پیلی کن خوف زدہ ہو گیا۔ اگر اس دوران کچھوے نے منہ کھول دیا تو جانتے ہو کیا ہو گا۔ میں ہرگز منہ نہیں کھولوں گا کچھوا جلدی سے بول پڑا۔ تینوں دوستوں نے سفر کا آغاز کیا اور جو بھی ان کو دیکھتا ان کی دوستی پر عش عش کر اٹھتا۔ آخر منزل قریب آ گئی،اس دوران ایک آدمی نے دیکھا تو چیخ کر کہا ارے او بے وقوف کیوں اپنی شامت کو آواز دے رہا ہے گر گیا تو پتہ ہے کیا ہو گا گدھے؟ کچھوا جو اتنی ثابت قدمی سے منہ میں لکڑی پکڑے تھا۔ چیخ کر بولا خود ہو گے گدھے، بس پھر کیا تھا اتناکہنا تھا کچھواسے لکڑی کا تنا چھوٹ گیا۔
سحرامین
گورنمنٹ فاطمہ جناح کالج چونا منڈی لاہور