برصغیر کی تقسیم اور دو قومی نظریہ

May 17, 2018

آغا امیر حسین

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں بن بلائے مہمان بن کر دہلی پہنچے اور تقریب میں شرکت کی، مبارک باد تو ایک رسمی سی بات ہے اہم بات یہ ہے کہ دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے جو باتیں کیں وہ پاکستان کے قومی مفاد اور دو قومی نظریہ کی نفی کرتی ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ ایک ہی معاشرہ ہے، جو آپ پہنتے ہو وہی ہم پہنتے ہیں، جو آپ کھاتے ہو وہی ہم کھاتے ہیں مجھے بھی آلو گوشت بہت پسند ہے آپ کا بھگوان اور ہمارا خدا ایک ہی ہے وغیرہ وغیرہ اور آخر میں یہ کہنا کہ بس یہ بیچ میں ایک لکیر ہے۔ (بارڈر) جب چاہیں گے ختم ہو جائے گی۔ دِلّی میں اپنے بیٹوں کے ساتھ کن لوگوں سے ملاقاتیں کیں کیا کچھ طے ہوا جن پر گزشتہ چار سال میں عمل ہوتا ہوا نظر آتا رہا ہے۔ مودی صاحب کے ساتھ راز و نیاز اور سری لنکا میں بقیہ ملاقاتیں وغیرہ سب کچھ میڈیا پر آتا رہا ہے۔ پھر اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں سیفما کے زیر اہتمام تقریب میں وہی باتیں دہرائی گئیں جو دِلّی میں کی گئی تھیں لیکن اس سیمینار کی رپورٹنگ رات ایک بجے کے بعد رکوا دی گئی۔ جہاں تک موصوف کے خیالات کا تعلق ہے وہ سب کے سامنے ہیں۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا شخص یا جماعت ہو جو بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہش نہ رکھتا ہو۔ پاکستان آزاد اور خودمختار ملک ہے۔ طاقتور فوجی قوت ہے، ایٹمی طاقت ہے 20/22 کروڑ انسانوں کا ملک ہے پاکستان بھوٹان، سکم یا بنگلہ دیش نہیں ہے جن کے حکمرانوں کو بھارت اپنے اشاروں پر نچاتا رہتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں بھارت کے عزائم اجیت دول بیان کر چکا ہے اجیت دول بھارت کی نیشنل سکیورٹی کا انچارج وزیر ہے، بھارت جنوبی وزیرستان، فاٹا، بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہے جس کے ناقابل تردید شواہد پاکستان دنیا کو فراہم کرتا رہا ہے جب سے سی پیک منصوبہ آیا ہے بھارت بے چین ہے وہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کی سازشوں میں لگاتار مصروف ہے وہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ منصوبہ مکمل ہوگیا تو پاکستان اور چین کا رابطہ سنٹرل ایشیا کے ممالک کے گہرے تجارتی تعلق میں تبدیل ہو جائے گا اور گوادر کی وجہ سے مڈل ایسٹ افریقہ یورپ وغیرہ کی مارکیٹوںمیں بھارت کے لئے مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا ایک اور ایجنڈا ’’اسلام دشمنی‘‘ ہے بھارت نے پچھلے دنوں میان مار (برما) میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں برما کی افواج کی مدد کی ان سے وہ علاقے خالی کرا لئے گئے جہاں وہ صدیوں سے رہتے چلے آ رہے تھے 30/40 لاکھ روہنگیا مسلمان کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں یہی کچھ اسرائیل فلسطین اور بھارت کشمیریوں کے ساتھ کر رہا ہے۔ چین کے ساتھ بھی بھارت حالت جنگ میں ہے تبت، بھوٹان، سکم، اور نیپال روڈ پر کام تیزی سے جاری ہے۔ چھوٹی بڑی جھڑپیں بھارت اور چین کی ہوتی رہتی ہیں۔ چین ایک طاقتور اور بڑاملک ہے اس لئے بھارت چینی افواج کو سپرپاور سمجھ کر برداشت کر رہا ہے۔ بھارت کے اندر مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ موجودہ بھارتی حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ تو ان کے ہندو توا منشور کا حصہ ہے۔ بھارت کے دور دراز علاقوں سے بہت کم خبریں باہر آتی ہیں بڑے شہروں میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس نے تقسیم کے لئے قائدعظم کی جدوجہد کو دُرست ثابت کر دیا ہے۔ اکھنڈ بھارت اور ہندو توا پر مکمل عمل درآمد اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک پاکستان موجود ہے۔ جہاں تک ہمارے تین مرتبہ کے نااہل ہونے والے وزیراعظم کا تعلق ہے تو وہ قائدعظم محمد علی جناح کے ساتھ ایک انگریز دانشور سے یہ مکالہ پڑھ لیں ان کی سمجھ میں دو قومی نظریہ بھی آ جائے گا اورتقسیم اور لاکھوں شہیدوں کی قربانی کے بعد حاصل ہونے والے اس ثمر پاکستان کی اہمیت کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔
انگریز دانشور نے قائداعظم سے سوال کیا۔
جب آپ کہتے ہیںکہ آپ مسلمان الگ قوم ہیں تو کیا آپ مذہب کے معنوں میں سوچ رہے ہوتے ہیں؟
اس پر بابائے قوم نے فرمایا۔
’’جزواً کاملاً ہرگز نہیں۔ آپ یہ حقیقت کبھی نظرانداز نہ کریں کہ اسلام صرف نظام عبادت کانام نہیں، یہ تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظام حیات دیتا ہے، میں زندگی کے معنوں میںسوچ رہا ہوں، میں زندگی کی ہر اہم چیز کے معنوں میں سوچ رہا ہوں، ان تمام شعبوں میں ہمارا نقطہ نظر نہ صرف ہندوئوں سے انقلابی طور پر مختلف ہے بلکہ بسا اوقات متصادم بھی ہے۔ ہماری اور ہندوئوںکی زندگی میںایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں بنیادی طور پر ہم رشتہ کرسکے۔ ہمارے نام، ہمارے لباس، ہماری خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہماری اقتصادی زندگی، ہمارے تعلیمی تصورات یہاں تک کہ جانوروں تک کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر مختلف ہے۔ ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گائے کا ابدی مسئلہ۔ ہم گائے کو کھاتے ہیں وہ اس کی عبادت کرتے ہیں۔ گزشتہ ایک ہزار سال سے یہ اختلافات جوں کا توں موجود ہے۔ انگریز کی سامراجی سنگینوں سے بھی یہ اختلافات نہ مٹ سکے یورپ کے روشن خیال، لیبر اور سیکولرتصوّرات بھی برصغیر میںبرپا تہذیبی تصادم کو نہ مٹا سکے۔‘‘

مزیدخبریں