امریکہ نے فلسطینیوں کے سینے میں اپنا ایک او زہریلا خنجر کچھ اس طرح پیوست کر دیا ہے کہ ارض فلسطین ایک بار پھر لہولہان ہو گئی ہے۔ دُنیا بھر کی مخالفت کے باوجود امریکہ نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر دیا۔ سفارتخانہ کی منتقلی اس وقت ہوئی جب فلسطین یوم نکبہ کے تحت ہفتہ حصول ارض فلسطین منا رہے تھے۔ سرزمین فلسطین کے سینے پر کھینچی تقسیم کی یہ منحوس لکیر فلسطینیوں نے کبھی قبول نہیں کی۔ امریکہ برطانیہ اور اس کے حواریوں نے یہودی سلطنت کے قیام کے لئے یہودیوں کو دل کھول کر امداد دی ان کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے اور 70 برس قبلجبراً فلسطین کے وجود میں ایک سرطان کوجنم دیا جس کا نام اسرائیل رکھا گیا۔ اگر مسئلہ یہاں تک ہی رہتا تو شاید مسلم اُمہ یہودیوں کے بھی جینے کا حق تسلیم کرتی۔ مگر جلد ہی اسرائیل کے نام سے قائم اس ریاست کی آڑ میں مغربی ممالک اور وہاں آباد یہودی سرمایہ داروں نے آہستہ آہستہ فلسطین کے باقی حصوں پر بھی بزور طاقت اور دولت قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ اسرائیل اور علاقے کے دیگر ممالک کے درمیان جنگ ہوئی جس کی آڑ میں اسرائیل نے گولان صحرائے سینا اور غرب اردن اور فلسطین کے دارالحکومت بیت المقدس سمیت بڑے رقبے پر بھی قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ ہنوز جاری ہے۔ مسلم ممالک کی بے حمیتی انتشار اور باہمی سر پھٹول کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہوتے رہے۔ یوں فلسطین کے اہم حصوں اور بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ مستحکم ہوتا گیا۔ بعد میں عرب اسرائیل معاہدے کے تحت فلسطین کا کچھ حصہ واگزار کر دیا گیا اور وہاں فلسطین کی ریاست قائم ہوئی مگر بیت المقدس ابھی تک اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ یہ فلسطینی ریاست فلسطینیوں نے تحفہ میں حاصل نہیں کی۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے جنہیں جبراً بے دخل کیا گیا۔ ہزاروں فلسطینی مہاجر اردن، لبنان اور مصر میں بغاوت کے نام پر مارے گئے۔ لاکھوں فلسطینی مسلسل کئی دہائیوں سے برسرپیکار ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ارض فلسطین کی بنیادوں میں اس کے لاکھوں شہداء کا خون رچ بس گیا ہے۔ فلسطینی اپنے مقبوضہ علاقوں کی بازیابی کے لئے یوم نکبہ مناتے ہیں۔ اس مرتبہ یہ تقریبات جاری تھیں غزہ میں ہزاروں فلسطینی دیوار برلن کی طرز پر قائم قائم اسرائیلی دیوار کے پاس جمع اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ جس کے جواب میں اسرائیلی فوج کی وحشیانہ فائرنگ سے درجنوں فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ اس دوران امریکہ نے جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے جان بوجھ کر اس خطرناک موقع پر اسرائیل میں موجود اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دیا جس کے جواب میں دُنیا بھر میں مسلمان بپھر گئے اور احتجاج کی لہر نے دُنیا بھر کو متاثر کیا۔ فلسطینیوں کے غم و غصے اور احتجاج میں بھی شدّت آئی تو امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کے دن اسرائیلی فوج کی وحشیانہ فائرنگ سے 72 مزید فلسطینی اپنے وطن کے مقبوضہ رقبے کے حصول کی جدوجہد میں جام شہادت نوش کر گئے۔ پوری دُنیا میں امریکہ پر لعن طعن ہو رہی ہے۔ مگر ٹرمپ خوش ہے کہ اس نے اپنا ایک اور وعدہ پورا کر دیا۔ اس وعدہ پر 72 فلسطینی قربان کر دئیے۔ امریکہ کی ہٹ دھرمی دیکھئے اس نے دُنیا کے شور شرابے کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور سلامتی کونسل کو بھی فلسطینیوں کی اتنے بڑے پیمانے پر شہادتوں کی تحقیقات سے روک دیا ہے۔ ان حالات میں صرف ترکی، ایران، کویت اور فلسطین نے امریکہ سے اپنے سفیر واپس بلا لئے ہیں۔ باقی مسلم ممالک صرف زبانی کلامی مذمت کے بعد مطمئن ہیں۔ مسلم اُمہ کی یہی بے حسی کشمیر کے مسئلے میں بھی واضح نظر آتی ہے۔ 56 اسلامی ممالک میں سے سوائے ترکی کے کسی نے بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے شاید ہی کبھی لب کشائی کی ہو۔ ایران کی طرف سے بھی رسمی بیان کبھی سُننے کو مل جاتا ہے۔ کشمیری بھی 70 برس سے اپنی مقبوضہ غصب شدہ ارض وطن کے حصول کے لئے سراپا احتجاج ہیں ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری اپنے وطن کے حصول کے لئے غاصب سات لاکھ بھارتی افواج سے نہتے نبرد آزما ہیں۔ کشمیری جوان بچے اور عورتیں پتھروں سے بھارتی بندوقوں، مشین گنوں، بکتربند گاڑیوں، ٹینکوں، راکٹ لانچروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ مگر عالمی سطح پر انسانی حقوق جمہوریت اور آزادی کے دعوے کرنے والے حکمران اور ممالک خاموش ہیں۔ چند دنوں قبل 26 سے زیادہ کشمیری ایک ہفتے میں شہید کئے گئے۔ درجنوں گھر بمباری کر کے خاکستر کر دئیے۔ کشمیر کا مسئلہ کوئی نیا نہیں یہ اقوام متحدہ کے حل طلب مسئلوں میں ایک پُرانا مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے درجنوں بار اس پر غور کیا زیر بحث لایا۔ بھارت نے اقوام متحدہ میں اس کے حل کی ذمہ داری قبول کی۔ اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل رائے شماری قراردیا گیا۔ جو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہو گی اور کشمیری عوام مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ بھارت نے شروع میں تو یہ قبول کر لیا مگر اسرائیل کی طرح آہستہ آہستہ جیسے جیسے اس کا تسلط کشمیر پر مضبوط ہوتا گیا اس نے لاکھوں کی تعداد میں فوج اور بھاری اسلحہ کشمیر میں پہنچا کر وہاں اپنا قبضہ مستحکم کر لیا اور چند غداروں کے ساتھ مل کر اعلان کر دیاکہ کشمیر نے بھارت سے الحاق کر لیا بعد میں یہ تکلف بھی ختم کر کے اسے براہ راست بھارت میں ضم کر کے اپنی سٹیٹ قرار دیا۔ جس کے خلاف 70 برسوں سے کشمیری لڑ رہے ہیں۔ بے پناہ ہزیمتوں کے باوجود بھارتی آرمی چیف نے بھڑک لگائی کہ کشمیری جنگ نہیں جیت سکتے۔ اس کے جواب میں کشمیری اب آزادی یا شہادت کا نعرہ لگاتے ہوئے بھارت کے غاصبانہ قبضے کو ببانگ دہل چیلنج کر رہے ہیں۔ ان کا اور فلسطینیوں کا یہ درد مشترکہ ہے کہ دونوں 70 برس سے اپنے مقبوضہ ارض وطن کے حصول کے لئے آزادی کے لئے برسرپیکار ہیں۔ نہتے ہاتھوں ، خالی پتھروں سے ٹینکوں اور بموں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر مسلم اُمہ متحد ہو جائے تو ان کے اس مشترکہ درد کا علاج ممکن ہے ورنہ یہ دونوں اُمت مسلمہ کے جسد واحد کے وہ دو ناسور ہیں جو مسلسل رستے رہیں گے اور اس کی تکلیف پورے جسم کو ہوگی…
یوم نکبہ، فلسطین اور کشمیر کا یکساں درد
May 17, 2018