انتخابی منشور میں معذوروں کا بلیک آؤٹ کیوں؟

خبر یہ ہے کہ راولپنڈی کے پانچ سو معذور افراد کو سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں بھرتی کرنے کا پراسیس شروع کر دیا گیا اور اس سے بھی بڑی خبر کہ حکومت نے معذور لوگوں کو ٹرانسپورٹ اور ٹرین کے کرایوں میں پچاس فیصد رعایت دینے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ اسلامی فلاحی مملکت کے اس بنیادی کام کا بیڑا عام انتخابات کے لئے عبوری حکومت کے قیام سے کچھ روز پہلے اٹھایا گیا یا پھر یوں کہیے کہ ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا۔ یورپ کے جمہوری اور فلاحی معاشرے کا تصور حضرت عمر فاروقؓ کی طرز حکمرانی سے غیر اعلانیہ طور پر لیا گیا ہے۔ وہاں تو یہ کام ہمہ وقت پورے انہماک کے ساتھ جاری و ساری رہتا ہے۔ یہ نیک کام فصل گل ولالہ کا پابند نہیں اور اس ضمن میں قانون سازی بھی ہر قسم کے حالات میں ہوتی رہتی ہے‘ لیکن بدقسمتی سے یورپ کا یہ نیک پہلو ہمارے سامنے کم کم ہی آتا ہے۔ ہمارے ملک میں معذور افراد کی غالب آبادی تعلیم و تربیت سے محروم ہو کر بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔ قدرتی آفات اور ناگہانی واقعات کے نتیجے میں معذور افراد کی تعداد الگ ہے وہ بھی حکومت کی نظر التفات سے کم و بیش محروم ہی رہ جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے کن معذور افراد کی فلاح و بہبود اور علاج معالجے کی ذمہ داری نبھائی جاتی ہے؟ یقیناً یہ بااثر اور بارسوخ لوگ ہوتے ہیں‘ جو بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومتی ایوانوں تک رسائی رکھتے ہیں۔ ان میں سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے معذور سرفہرست ہیں‘ جنہیں زندگی کی تمام سہولتیں بیک جنبش قلم مہیا کر دی جاتی ہیں۔ جنگ اور فوجی مہمات میں معذوری کا شکار ہونے والے افراد کی نگہداشت خود فوجی ادارے کرتے ہیں اور وہ اس ضمن میں اپنے فرائض ہر سطح پر بطریق احسن ادا کرتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں معذور افراد دوبارہ فعال زندگی خوش و خرم گزارنے لگ جاتے ہیں یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک و قوم کے لئے قربانیاں دینے والے لوگوں کو ایسا ہی صلہ ملنا چاہئے اور وہ اس کے حقدار بھی ہیں لیکن دوسری جانب بہرصورت معذوری کا دکھ جھیلنے والے پاکستان کے عام شہری سسک سسک کر زندگی گزار دیتے ہیں‘ ان کے لئے خیرات اور زکوۃٰ بانٹنے والے سرکاری ادارے تک نہیں بنائے گئے۔ مثال کے طورپر آپ ذرا غور فرمائیے پولیو اور دیگر معذوری کا سبب بننے والی مہلک بیماریوں کی زد میں آنے والے ہمارے ملک کے کثیر تعداد بچے جب چل پھر ہی نہیں سکتے تو وہ تعلیم کیسے حاصل کریں گے؟ بیساکھیوں اور وہیل چیئرز پر گھر سے باہر نکلنے والے بچے اور بڑے معذور افراد کے لئے کیا کچھ مشکلات اور دشواریاں ہوتی ہیں؟ یہ سب وہی جانتے اور جھیلتے ہیں۔ سوائے ہسپتالوں کے کسی سرکاری اور پرائیویٹ ادارے کی عمارت میں وہیل چیئر کے داخلے کی خاطر سلوپ یا سلائیڈ تک نہیں ہے۔ بیساکھیوں پر چلنے والوں کے لئے لفٹ تک کا انتظام موجود نہیں۔ واش روموں میں معذوروں کے لئے سیٹ والے کموڈز نہیں ہیں‘ ناچار سیڑھیوں سے اوپر والے فلورز میں جانا چاہیں تو کیسے جائیں؟ کوئی ہیلپر تک موجود نہیں ہوتا اور حد تو یہ ہے کہ مساجد میں بھی معذور افراد کے لئے نماز پڑھنے کی سہولیات عنقا ہیں‘ بہت کم مسجدیں ایسی ہیں‘ جہاں نماز کے لئے کرسیاں رکھی گئی ہیں۔ شناختی کارڈ پر اگرچہ معذور افراد کے لئے نشان معذوری ثبت کیا گیا ہے لیکن سرکاری اور نیم سرکاری سطح پر دھیلے کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ معذور افراد جو خود مالی معاونت کے حقدار ہوتے ہیں‘ سرکاری سطح پر ان کے لئے ٹیکس میں کوئی رورعایت نہیں‘ معاشرے میں سپیشل لوگوں کے بارے آگاہی بہت کم ہے‘ بلکہ سرے سے موجود ہی نہیں‘ کوئی معذور شخص سڑک پار کر رہا ہو تو دائیں بائیں کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ اس کو سہارا دیکر فٹ پاتھ تک لے جائے حد یہ ہے کہ سفید چھڑی کا دن منانے کے باوجود اس بارے کسی کو کوئی معلومات نہیں‘ اکثر لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ سفید چھڑی کس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ میں نے متعدد مرتبہ سفید چھڑی والے نابینا شخص کی سرراہ کسی کے ساتھ ٹکر ہو جانے کی صورت میں اسے الجھتے دیکھا ہے‘ پھر جب کوئی آشنا اسے بتائے کہ بھائی یہ نابینا شخص ہے تو وہ شرمندہ ہو جاتا ہے یہ سب کیا ہے؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے معذور لوگوں کی ایک غالب آبادی کو نظرانداز کر رکھا ہے۔ قومی اور صوبائی سالانہ میزانیوں میں بھی ان کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی فنڈز مختص نہیں کئے جاتے‘ کیا ترقیاتی اور میونسپل ادارے یہ نہیں جانچ سکتے کہ جس عمارت کی تعمیر کا ہم اجازت نامہ دے رہے ہیں‘ اس میں معذور افراد کے داخلہ اور مختلف امور نمٹانے کے لئے جملہ سہولیات موجود ہیں کہ نہیں؟ ہماری حکومتوں نے معذور افراد کی فلاح و بہبود کے مقاصد کی بجاآوری کے لئے کوئی ٹیکس نہیں لگایا‘ آخر کیوں؟ اس لئے کہ قومی و صوبائی میزانیوں میں معذوروں کی ویلفیئر کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ اس سے بڑی اور کیا مایوسی کی بات ہوگی کہ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں معذوروں کی فلاح اور ترقی کا کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کرتیں اس ساری صورت حالات پر کف افسوس ملنے کے ساتھ ساتھ ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ معذور افراد بے چارے کیا کریں؟ وہ اپنی معذوری کے جملہ مسائل کے ساتھ نبردآزما ہوتے ہیں۔ گھر میں ہوں تو اہلخانہ انہیں ذہنی طورپر خصوصی فرد کی طرح قبول نہیں کرتے‘ ان کی معاونت میں پس پیش کیا جاتا ہے۔ گھر سے باہر جائیں تو جاننے والے لوگ کترا کر گزر جاتے ہیں جبکہ اجنبی افراد ان سے بیماری کی تمام تر جزئیات و تفصیلات جاننا چاہتے ہیں‘ وہ بے چارے کہاں تک اپنی بیتا سنائیں۔ لوگ ان کی داستان غم سن کر توبہ توبہ کرنے لگتے ہیں یا تمام لوگوں کی موجودگی میں کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے ایسا کرنا روا ہے؟ مستحسن طریقہ تو یہ ہے کہ آپ کسی معذور شخص کو دیکھ کر دل میں اس کے لئے دعا کریں اور اگر چاہیں تو اس کے سامنے نیک خواہشات بھی ظاہر کریں‘ لیکن یہاں تو معذور افراد کو اہلخانہ کی جانب سے بھی تاسف کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ معاشرے کے نرم دل لوگ بھی معذوروں کو صدقہ و خیرات دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے۔ پورے ملک میں سپیشل لوگوں کے لئے شلٹر ہوم تک موجود نہیں۔ معذور افراد میں ایک تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی بھی ہے‘ وہ ہمت و استقلال کا عملی نمونہ ہوتے ہیں لیکن انہیں حکومت اور معاشرے کی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل نہیں یہ عالی ظرف معذور افراد جو ہیروں کی مانند ہوتے ہیں‘ مٹی میں رل کر اور سسکیاں لے لے کر مر جاتے ہیں۔ اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار نہیں ہوتا‘ اس لئے معذور شخص کا اللہ پر ایمان عام فرد سے کہیں زیادہ مضبوط اور غیر متزلزل ہوتا ہے۔ غرض کہ معذور افراد ایک طرف حکومتی سطح پر تاسف کا شکار ہیں تو دوسری جانب معاشرے سے بھی انہیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا وہ اپنے ذاتی عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ گاہ جیتے اور گاہ مرتے ہیں‘ اسی لئے ان کی طبیعت میں غصہ اور چڑچڑا پن عام لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ قدرت ان کے من میں فولاد بھر دیتی ہے جس کے زیر اثر وہ اپنا تحفظ خود کرنا جانتے ہیں یہ ان کی معروضی صورت حالات ہے جبکہ ذاتی اور فطری میلان کے زیر اثر وہ انتہائی خلیق اور مہربان ہوتے ہیں۔ دل کے شیشے میں اتارنے کا ہنر ان سے زیادہ کسی اور کو نہیں آتا وہ حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم ہوتے ہیں لیکن اپنے جبلی میلان کے سبب مخالفین اور دشمنوں سے نمٹنے کا جذبہ بھی ان کے پاس موجود ہے جو بسااوقات ان کے کردار میں فولاد کی طرح در آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آمدہ عام انتخابات کے پیش نظر ملک کی تمام چھوٹی، بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انتخابی منشور میں ملک کے معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لئے بھی اقدامات تجویز کریں تاکہ اقتدار میں آ کر وہ اپنے ان عزائم کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ اس طرح پاکستان کی ایک اہم آبادی جسے سپیشل افراد کہا جاتا ہے کی فلاح و ترقی کا کام بھی شروع ہو سکے۔

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ای پیپر دی نیشن