اسلام آباد (خصوصی نمائندہ + ایجنسیاں) پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے فاٹا کے انضمام کے حوالے سے حکومتی موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایوان سے واک آئوٹ کردیا۔ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے کہا تھا کہ فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم نہیں کیا جارہا، 2018ء میں صوبائی الیکشن فاٹا میں نہیں ہونگے۔ قومی اسمبلی میں ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ فاٹا کے انضمام میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے‘ اگر قیام پاکستان کے وقت اور اٹھارہویں ترمیم کے وقت انفراسٹرکچر کی تعمیر کی شرط عائد ہوتی تو یہ دونوں کام نہیں ہو سکتے تھے، فاٹا کے حوالے سے جامع بل آنا چاہیے، پیپلز پارٹی کے عبدالستار بچانی نے کہا کہ فاٹا کے خیبرپی کے میں انضمام کے حوالے سے اطلاعات تھیں اب کہا جارہا ہے کہ انضمام کا بل نہیں آرہا۔ ہم اس سے ہٹ کر کسی آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے ارکان واک آئوٹ کرگئے۔ ڈاکٹر عذرا فضل نے کہا کہ حکومت کو وعدہ پورا کرنا چاہیے‘ فاٹا کو انصاف ملنا چاہیے۔ فاٹا کے لوگوں کو اپنے حق میں قانون سازی کا اختیار ہونا چاہیے‘ فاٹا میں انضمام کے بعد ترقیاتی عمل جاری رکھنا چاہیے۔ علی محمد خان نے کہا کہ فاٹا انضمام کے حوالے سے ہمیں کسی کی ڈکٹیشن میں نہیں آنا چاہیے۔ پی ٹی آئی ‘ مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی اور اے این پی فاٹا کے انضمام کے حق میں ہیں‘ فاٹا کے عوام فاٹا کا انضمام چاہتے ہیں۔ وہ بلدیاتی نظام چاہتے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی اپنے سیاسی عزائم کو پس پشت ڈال کر فاٹا کے انضمام کی مخالفت نہ کریں۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ فاٹا کا انضمام آخری مرحلہ میں ہے۔ انشاء اللہ اس کی تکمیل ہونے والی ہے۔ ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین نے کہا کہ فاٹا کے 30 لاکھ لوگوں کے لئے ایف سی آر جیسے کالے قانون کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ آفتاب احمد خان شیرپائو نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کے لئے ایوان کی کمیٹی نے تمام ایجنسیوں کا دورہ کیا اور اکتوبر 2016ء میں رپورٹ پیش کی۔ اس کمیٹی نے سٹیٹس کو برقرار رکھنے ‘ علیحدہ صوبہ اور انضمام کی صورت میں تین آپشن کی تجاویز دیں۔ ہماری توقع تھی کہ معاملات آگے کی طرف جائیں گے لیکن اس میں رکاوٹیں سامنے آرہی ہیں۔مولانا فضل الرحمان اور دیگر ارکان کے نکات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ 2018ء کے الیکشن میں فاٹا میں صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کے الیکشن میں کوئی تبدیلی نہیں لا رہے۔ 2018ء کے عام انتخابات کے ایک سال بعد وہاں پر بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔ ہم نے پانچ سال بعد فاٹا کے انضمام کی بات نہیں کی تھی بلکہ یہ کہا تھا کہ پانچ سال کے اندر کریں گے‘ تین سال گزر گئے ہیں۔ جب تک فاٹا میں مکمل انفراسٹرکچر نہیں بن جاتا ہے یہ عمل شروع نہیں ہو سکتا۔ ہمارے پاس اس کام کے لئے 10 ارب روپے پڑے ہیں۔ فاٹا کے 98.5 فیصد بے گھر افراد اپنے گھروں کو واپس جاچکے ہیں۔ 25 لاکھ بے گھر افراد میں سے صرف ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی اپنے گھروں میں منتقلی باقی ہے۔ فضل الرحمان نے 2012ء میں جس جرگے کی بات کی وہ انہوں نے اپنی پارٹی پلیٹ فارم سے کیا ہے۔ اس جرگے کی رپورٹ پر تمام سیاسی جماعتوں کے دستخط موجود ہیں‘ سوائے جے یو آئی (ف) کے ارکان کے باقی تمام جماعتوں کے ارکان فاٹا انضمام کے حق میں ہیں۔ فاٹا کے انضمام کا پیکج ابھی تک قائم ہے۔ اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ قومی اسمبلی نے وزارت دفاع اور خزانہ سمیت مختلف وزارتوں اور ڈویژنز کے مزید 34 مطالبات زر کی منظوری دیدی ہے۔ ایم کیو ایم کی طرف سے کٹوتی کی تحاریک پیش کی گئیں جو ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کردیں۔ جماعت اسلامی ‘ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے اپنی کٹوتی کی تحاریک واپس لے لیں۔ وفاقی وزیر خارجہ اور دفاع انجینئر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن اور استحکام کیلئے پاکستان افغانستان کیساتھ مسلسل رابطوں میں ہے، کاسا ون 1000 اور تاپی جیسے منصوبوں میں تیزی آئی اور اگر افغانستان میں امن آیا تو جلد مکمل ہوں گے۔کورم کی نشاندہی پر مطالبات زر کی منظوری کا مرحلہ مکمل نہ ہو سکا کورم کی نشاندہی پر حکومتی ارکان نے تحریک انصاف کیلئے شیم شیم کے نعرے لگائے۔ اس معاملے پر ڈاکٹر عارف علوی اورپرایذئیڈنگ آفیسر زاہد حامد میں گرما گرمی ہوگئی۔ڈاکٹر عارف علوی کو بغیر مائیک کے شور مچانے اور کورم کی نشاندہی پر زاہد حامد نے ڈانٹ پلا دی۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کورم کورم کے نعرے لگانے شروع لر دیئے اور کارروائی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ زاہد حامد نے برہمی کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ مطالبات زر پر رائے لے رہے ہیں اسے تو مکمل ہونے کا انتظار کرے پانچ سال ہو گئے اتنا بھی نہیں سیکھا اور شور مچانا شروع کر دیا۔وزیر مملکت خزانہ رانا افضل نے کہا کہ تحریک انصاف نے یقین دہانی کرائی تھی کہ بجٹ اجلاس میں کورم کی نشاندہی نہیں کی جائے گی اس کے برعکس یہ ہو رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے رکن سہیل منصور خواجہ نے ایف آئی اے کی جانب سے انہیں اور انکی اہلیہ کو مبینہ غلط نوٹسز بھیجنے پر مسلسل دوسرے روزشدید احتجاج کیا دیگر پوزیشن اور حکومتی ارکان نے کھڑے ہو کر سہیل منصور خواجہ کیساتھ اظہار یکجہتی کیا جبکہ ایم کیو ایم کے اقبال محمد علی خان نے علامتی ہتھکڑیاں پہن کر احتجاج کیا۔ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کی جانب سے سہیل منصور خواجہ کا مائیک بند کرنے پر لیگی ارکان نے خواجہ خواجہ کے نعرے لگانے شروع کر دیئے اور درخواست کی کہ مذکورہ رکن اسمبلی کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے رولنگ دی جائے۔ (ن) لیگ کے رکن کیپٹن (ر) محمد صفدر نے کہا کہ اگر یہ ایوان21ویں گریڈ کے افسر کو تبدیل نہیں کر سکتا تو ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔ سہیل منصور خواجہ نے کہا کہ ایف آئی اے کے ڈی جی ذاتی عناد کی بنیاد پر انہیں اور ان کے اہلخانہ کو غلط نوٹسز بھیج کر تنگ کر رہے ہیں، کیا بیوروکریٹ یہی چاہتے ہیں کہ کاروباری شخصیات پاکستان چھوڑ کر چلی جائیں، میں پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والا کاروباری شخص ہوں۔ قومی اسمبلی 14دن کی مہمان ہے، قومی اسمبلی کے جانے کے بعد ایف آئی اے میرے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔