اسلام آباد (بی بی سی)حال ہی میں بھارت اور پاکستان کے لیے اپنی دو نئی شاخوں ’ولایت ہند‘ اور ’ولایت پاکستان‘ کے قیام کا اعلان اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے کیا ہے۔نیکٹا سربراہ نے اعتراف کیا ہے کہ داعش پاکستان میں موجود ہے۔پاکستان میں نئی شاخ کے قیام کے اعلان کے فوراً بعد 15 مئی کو جاری ہونے والے دو الگ الگ اعلامیوں میں ’ولایت پاکستان‘ نے 13 مئی کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایک پولیس افسر کو مارنے اور کوئٹہ میں پاکستانی طالبان کے ایک شدت پسند کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کے قومی ادارے نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی نے بتایا ’پاکستان میں دولتِ اسلامیہ کا وجود ہے، اس بات کو ہم یکسر مسترد نہیں کر سکتے۔ ایسا سوچنا کہ دولتِ اسلامیہ نہیں ہے اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا۔‘داعش کا کوئی خاص تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہوتا: ایک سربراہ ہوتا ہے، جیسا کہ ابوبکر البغدادی، جن کی پانچ برسوں کے وقفے کے بعد حال ہی میں ایک ویڈیو سامنے آئی ہے۔’آپ ان تنظیموں کی واضح موجودگی کو محسوس نہیں کر سکتے کیونکہ ماضی کے برعکس اب شدت پسند تنظیموں کے باقاعدہ دفاتر، بھرتی یا ٹریننگ سینٹر نہیں ہوتے کیونکہ وہ اپنا طریقہ کار تبدیل کر چکے ہیں۔‘چند افراد ایسی تنظیموں کی فکر اور تشدد کے فلسفے سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کو درست سمجھتے ہیں اور یہی افراد مختلف نیٹ ورکس کے ذریعے ایسی تنظیموں سے رابطے میں آ جاتے ہیں جس کے بعد وہ اپنے طور پر کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔’ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے حامی، ہمدرد اور ہم خیال موجود ہیں اور اس طریقے سے ان کی موجودگی بالکل ہے۔‘انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ دو سال قبل گجرات میں چند لوگ پکڑے گئے تھے جو شام گئے تھے اور کچھ وہ تھے جو جانے کا سوچ رہے تھے۔’تاہم اب افغانستان اور مشرق بعید کے ممالک میں شدت پسند تنظیموں کو قدم جمانے کی جگہ مل سکتی ہے۔ یہ وہاں رہیں گے اور وہاں سے حملے پلان کریں گے اور وہی مرکز رہے گا۔‘’تاہم وہ شدت پسند جو بہت زیادہ مخلص ہیں اور ان کے کچھ نہ کچھ رابطے ہیں وہ کہیں اور بیٹھ کر کارروائیاں پلان کر سکتے ہیں۔‘سکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا کہتے ہیں کہ پاکستان میں چند شدت پسند گروہ موجود ہیں جن کا جھکاؤ پہلے ہی دولتِ اسلامیہ کی طرف ہے۔