کوئی 40برس قبل کی بات ہے کہ ناچیز کو خواب میں امام الانبیاء حضور سرور عالمؐ کی زیارت نصیب ہوئی۔ منظرنامہ کچھ یوں تھا کہ آپؐ صحابہ کی ایک جماعت کے ہمراہ دائرہ کی صورت میں ایک وسیع و عریض میدان کے درمیان میں کھڑے ہیں جہاں ببول کا ایک درخت نمایاں ہے۔ سبھی نے کھدر کے لباس پہنے ہوئے ہیں۔ لمبا کرتا‘ ٹوپی‘ تہبند‘ سروں پر ڈھیلی وضع کی پگڑیاں‘ چہرہ کسی کا بھی واضح نہیں۔ مگر ماحول میں پھیلی پریشانی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اتنے میں ایک بے حد معزز او رمعتبر آواز بلند ہوتی ہے جو یقینا آقا و مولیٰؐ کی ہے۔ فرمایا: ’’امت پر بُرا وقت ہے۔ آئو بیعت رضوان کریں اور میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ 40 برس ہونے کو آئے‘ اللہ کے نبیؐ اور ان کے صحابہؓ کو جس حال حلیہ میں دیکھا‘ وہ آج بھی آنکھوں میں مجسم ہے اور جب کبھی چشم تصور سے دیکھتا ہوں تو عرب بھر سے متوازن جسموں والے کھدر پوش روشن چہروں کی زیارت ہو جاتی ہے۔ اس واقعہ کے بعد کائنات کی ان عظیم ترین ہستیوں کا پہناوا گویا میری آنکھوں میں کھب کر رہ گیا اور میں حسب اوقات عہد رسالتؐ کے پہنائوں کے بارے میں آگہی حاصل کرتا رہا۔ زیرنظر مضمون اسی تگ و دو کا نتیجہ ہے۔ کہیں غلطی‘ کوتاہی دکھائی دے تو معاف فرما دیجئے گا۔ قرآن کریم کی سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتاہے: اے آدم کی اولاد! ہم نے تم پر لباس اتارا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپتا ہے اور زیبائش عطا کرتا ہے۔ بے شک بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ جناب رسالت مآبؐ بالعموم سفید لباس پسند فرماتے تھے۔ نسائی‘ ترمذی اور ابن ماجہ سے روایت ہے کہ سفید رنگ کی پسندیدگی کی وجہ آپ کی سادگی اور صفائی ہے کیونکہ اس میں میل بہت جلد نمایاں ہو جاتا ہے اور لباس کے گندا ہونے کا امکان نہیں رہتا۔ آپؐ نے سفید کپڑا زندوں کیلئے ہی پسند نہیں فرمایا‘ میت کو بھی سفید کفن میں سپردخاک کرنے کی تلقین فرمائی۔ آپؐ کا لباس قمیض‘ تہبند اور پگڑی پر مشتمل ہوتا۔ پگڑی بھی بالعموم سفید رنگ کی ہوتی مگر دیگر رنگوں کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ مسلم اور ترمذی کے مطابق اللہ کے نبیؐ فتح مکہ کے بعد شہر میں داخل ہوئے تو سیاہ رنگ کی پگڑی باندھی ہوئی تھی۔ مشکوٰۃ شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ پگڑی کا شملہ بھی ہوتا جس کی لمبائی معتدل اور اسے دونوں شانوں کے درمیان لٹکاتے۔ لباس اکثر پرانا ہوتا حتیٰ کہ پیوند لگانے تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ کی رحلت کے بعد ام المومنین حضرت عائشہؓ نے بعض صحابہؓ کی خواہش پر انہیں رسول ؐ خدا کا وہ لباس دکھایا جو آپ نے دم واپسیں پہنا ہوا تھا ہم نے دیکھا کہ تہمند موٹے کپڑے کا ہے اور کرتے کو جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ جناب رسالت مآب ؐ کے پاس جبہ کی موجودگی کے حوالے سے بعض روایات موجود ہیں۔ حضرت اسمائؓ بنت ابوبکرؓ سے مشکٰوۃ شریف میں مروی ہے کہ آپؐ کے پاس ریشمی کالر والا ایک جبہ بھی تھا جو حضرت عائشہ ؓ کی رحلت کے بعد حضرت اسماؓ کی تحویل میں آگیا تھا۔ آنحضرتؐ نے یہ جبہ پہنایا نہیں اس حوالے سے مختلف روایات موجود ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ حضرت ایک خوبصورت سا اوورآل (جُبّہ) حضرت عمر فاروقؓ کو کہیں سے ملا تو حضور سرور عالمؐ کی خدمت میں اس تجویز کے پاس پیش کیا کہ غیرملکی سفراء اور وفود کے ساتھ ملاقات کے مواقع پر زیب تن فرما لیا کریں جس سے آپ ؐ نے یہ کہتے ہوئے اختلاف فرمایا کہ فاخرانہ پہناوے قیصر و کسریٰ کی نشانیاں ہیں اور انہیں پہننے والوں کیلئے آخرت میں کوئی اجر نہیں، ایسے ہی قوی امکان یہی ہے کہ حضورؐ نے جبہ پہننے سے اجتناب فرمایا ہوگا۔
کچھ اسی قسم کی روایت پائیجامہ کے بارے میں بھی ہے جو ایک صحابی ملک شام سے لائے تھے۔ خدمت میں پیش کیا گیا تو آپؐ نے اظہار پسندیدگی فرمایا کہ سلا ہونے کی وجہ سے نسبتاً زیادہ پردہ پوش ہے۔ مگر تاریخ کی کتب میں اس کے استعمال کئے جانے کی روایت نہیں ملتی۔ جفت سازی کے حوالے سے البتہ ایک بات طے ہے کہ حضورؐ کے زمانے میں یمن، حجاز اور شام میں چمڑے کی صنعت فروغ پاچکی تھی۔ لاہور کی بادشاہی مسجد والے میوزیم سے چوری ہونے والا آپؐ کا نعلین مبارک چمڑے کی مصنوعات کے حوالے سے اس دور کے حجاز میں ہونے والی ترقی کا غماز تھا جو بدقسمتی سے برآمد نہیں کرایا جاسکا۔ اس قسم کے نعلین مبارک آپؐ کے استعمال میں رہتے تھے۔ یاد رہے کہ اس زمانے کے برصغیر اور صدیوں بعد تک بھی مقامی آبادی میں جوتے کے استعمال کا رواج نہ تھا اور لوگ ناڑ اور پرال وغیرہ سے پائوں کو موسم کی شدت سے بچاتے تھے۔ لباس کے سائز کے بارے میں آقا رسولؐ نے ایک عمومی اصول بیان فرما دیا کہ اس کی طوالت گھٹنے اور ٹخنے کے درمیان تک ہو۔ ابو دائود اور ابن ماجہ کے مطابق ٹخنوں سے نیچے لٹکتا ہوا لباس کا حصہ جہنم کی آگ میں جلتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ ٹخنے سے نیچے تک کے لباس کے شوقینوں کو اللہ قیامت کے دن منہ نہیں لگائے گا۔ آقا و مولیٰؐ نے ایک اور سنہری اصول بھی بتا دیا کہ خالق و مالک نے مال و دولت سے نوازا ہے تو عمدہ قسم کا حلال لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں۔مردوں کے ریشمی لباس پہننے کی ممانعت ہے۔ (بخاری ۔ مسلم) البتہ مریضوں کو اجازت دی گئی کہ باعثِ راحت ہونے کی صورت میں ریشم استعمال کر سکتے ہیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت زبیرؓ کو کھجلی کا مرض لاحق ہو گیا، تو بطور خاص ریشمی لباس کی اجازت مرحمت فرمائی۔
مردوں کو عورتوں اور عورتوں کو مردوں جیسے پہناوئوں سے منع فرمایا۔ پیلے رنگ کی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی۔ حضرت عمرو بن العاصؓ کو پیلے رنگ کا لباس پہننے دیکھا تو ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لادینوں کا شیوہ ہے۔ سیاہ رنگ کو البتہ پسند فرمایا۔ فتح مکہ کے موقع پر سیاہ عمامہ پہننے کے علاوہ شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے بھی اس ضمن میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کے حوالے سے نقل کی ہے کہ حضور اکرم ؐ کہیںتشریف لیجارہے تھے تو آپ ؐنے سیاہ کمبل اوڑھا ہوا تھا، جس میں جگہ جگہ پیوند لگے تھے۔