لگتا ہے کہ عوام کی بجائے اپنے اپنے مفاد کے لئے اغیار کے ہاتھوں میںکھیلنے والوں کے پائوں اکھڑنے لگے ہیں۔تاخیر سے ہی سہی بھاشا ڈیم کی تعمیر کا آغاز اس کا ایک ثبوت ہے۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے اس حوالے سے جو اہم اور بنیادی کردار ادا کیا تاریخ اسکی ہمیشہ گواہی دے گی۔ انکے بعض عدالتی فیصلوں سے بعض لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن انہوں نے جس خلوص سے وطن عزیز کے بنیادی مسئلہ کے حل کیلئے تحریک چلائی اور پھر عملی طور فنڈ ریزنگ کے ذریعے سپریم کورٹ کے تحفظ کے ساتھ عوام کی اس بڑے قومی منصوبے میں شرکت کو یقینی بنایا وہ قابل ستائش ہے۔ اب جب چین کے سرکار ی ادارے چائنہ پاور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے مابین بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے چار سو بیالیس بلین روپے کے معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں اور بھارت کی طرف سے چیخ و پکار بھی سنائی دینے لگی ہے تو لگتا ہے کہ اب پاکستانیوں کی سنی گئی ہے اور سستی بجلی اور آبپاشی کیلئے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کا یہ منصوبہ مکمل ہوکر رہے گا۔تمام محب وطن حلقوں کی متفقہ رائے ہے کہ پاکستان کے مالی مسائل کابنیادی سبب یہاں پانی کے ذریعے سستی بجلی کی بجائے فیول کے ذریعے مہنگی بجلی بنانے اور قومی خزانے سے آئی پی پی یعنی پاور پروڈیوسرز کو اربوں روپے ادا کر کے عوام کو بجلی فراہم کرنا ہے۔ یہ بجلی بھی اتنی مہنگی ہے کہ ہمارے عوام بھی چیختے رہتے ہیں اور صنعتکار بھی اپنی مصنوعات کی لاگت زیادہ ہونے پر عالمی مارکیٹ میں دنیا کے دوسرے ممالک کی سستی پیداوار کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔بھاشا ڈیم سے پہلے کالا باغ ڈیم کو ہمارے مفاد پرست سیاستدانوں نے بے معنی سیاسی نعروں کے ذریعے مختلف حکومتوں کو بلیک میل کر کے نہیںبننے دیا ۔کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے در اصل اغیار کے ایجنٹ کے طور پر ایسے منصوبوں کی مخالفت کرتے رہے جس کے ذریعے ان لیڈروں اور انکی پشت پر کام کرنے والوں کے وارے نیارے ہوئے اورقومی خزانے سے اربوں روپے کے فراڈکی رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں ۔المیہ یہ بھی ہے کہ ان خفیہ اور ظاہری عوام دشمنوں کے خلاف نہ کبھی انکوائری ہوئی اور نہ ہی انکے خلاف کبھی کوئی کارروائی ہو سکی بلکہ ساری حکومتیں الٹا ان کی چاپلوسی پر مجبور ہوتی رہی ہیں ۔ سول حکومتیں تو ایک طرف ماضی کے مضبوط فوجی حکمران سابق صدر پرویز مشرف بھی ان سب کو منانے کی کوششیں کرتے کرتے ہار گئے۔دنیا بھر میں فیڈریشنیں کسی ملک کی مضبوطی کی ضمانت سمجھی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں باہر کی طاقتوں کے ایما پر مختلف صوبوں کی انتہا پسند اور اپنے اپنے صوبے کے کارڈ پر سیاست کرنے والی قیادتوں نے فیڈریشن کو خطرے کی علامت بنا دیا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تو صورت حال اور بھی خراب ہوچکی ہے۔اچھی بات ہے کہ اس وقت عدلیہ عسکری قیادت اور سیاسی قیادت ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر انداز میں ملک و قوم کیلئے سوچنے کے قابل ہے۔ کرونا وبا کے معیشت پر بہت زیادہ دبائو کے باوجود بھاشا ڈیم کا آغاز معمولی بات نہیں ہے۔ بھاشا ڈیم اسی لاکھ ایکڑ پر محیط ذخیرہ آب ہو گا اسکی بلندی دو سو بہتر میٹر ہو گی اور رولرکمپیکٹ کنکریٹ کے حوالے سے یہ دنیا کا سب سے اونچا ڈیم بنے گا ۔ اکیس میگا واٹ بجلی کا پاور پلانٹ اسکی تعمیر کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ساتھ لگے گا۔ڈیم دریائے سندھ پر صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع کوہستان اور گلگت بلتستان کے ضلع دیا میر میں بن رہا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان نے اور ان سے پہلے نواز شریف نے اس کا سنگ بنیاد رکھا مگر بیرونی طاقتیں اسکی تعمیر کی راہ میں روڑے اٹکا رہی تھیں۔حکومت کو ہمت کر کے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا بھی اعلان کر دینا چاہیے۔ملک کی محب وطن سیاسی قیادت پہلے بھی اسکے حق میں تھی اور آج کالا باغ ڈیم کے حق میں ہے ۔پاک فوج بھی ملک کے ایک قدرتی اور بہت بڑے ڈیم کی تعمیر کو ہمیشہ فیور کرتی رہی ہے ۔صرف گنتی کے چند بلیک میلر ہیں جن کے سامنے سب کو سرنڈر کرنا پڑتا ہے۔ نوائے وقت اوراسکے ساتھ دوسرے محب وطن میڈیا نے ہمیشہ کالا باغ ڈیم کی حمائت کی ہے لیکن مجموعی بے حسی پہلے جیسی ہے۔ عمران خان کو تھوڑی سی ہمت اور کرنی چاہئیے کہ کالا باغ ڈیم تو ان کے علاقے کے وقار کو بھی بلند کر سکتا ہے۔