وبائی امراض کا علاج و انسداد عام بیماریوں سے مختلف، پیچیدہ اور دشوارہوتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عام بیماریوں کے بر عکس وبائی امراض ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتے ہیںاور علاج کرنے والے یعنی معالجین اور ہسپتالوں کا متعلقہ عملہ خود بھی ان کا شکار ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ وبائی امراض کے معالجین اور اُن کے پیشہ ورانہ مددگاروں کو مخصوص حالات ، طے شدہ طریقۂ کار اور ایک موثر دستور العمل کے مطابق ایسے امراض میں مبتلا مریضوں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔ جُوں جُوںمتعدی بیماریا ںاپنے پھیلاؤ میں اضافہ کرتی ہیں تُوں تُوں اُن کے علاج کا دائرۂ کار اور اس کی پیچیدگیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں۔اگر معالجین، نرسیںاور پیرامیڈکل و سینیٹری سٹاف جو وبائی امراض کے دستور العمل کی رُوح ہیں خود ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو جایئں تو متعدی امراض کے اُفقی اور عمُودی پھیلاؤ کی رفتار مذید تیز ہو جاتی ہے۔ دیگر کئی ملکوں کی طرح پاکستان کو بھی ایسا ہی صورتِ حال کا سامناہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک کے چاروں صوبوں میں میں تقریبا 450 ڈاکٹرز اور دیگر ہیلتھ کیئر ورکرز کرونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں ۔ کئی ڈاکٹرز اس دوران زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ چاروں صوبوں میں ڈاکٹروں نے اس سلسلے میں مظاہرے بھی کئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ڈاکٹرز ،پیرامیڈیکل سٹاف اور صفائی کے عملے کی حفاظت کیلئے مخصوص پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ (پی پی ای) ، دستانے، ماسک اور عینکوں کا فوری بندوبست کیا جائے ۔یاد رہے کہ ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر پیرامیڈیکل سٹاف کا اس مُوذی مرض میں مبتلا ہونا ایک نہایت خطرناک صورتِ حا ل کو جنم دیتا ہے ۔ (ا) یہ اس حکومتی منصوبہ بندی کے راستے میں رکاوٹ بنتاہے جس کے ذریعے ملکی سطح پر اس وبا پر قابُو پانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ (ب) جتنے معالجین، نرسیںاور پیرامیڈکل و سینیٹری سٹاف اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں وہ اس قابل نہیں رہتے کہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں سر انجام دے سکیں کیونکہ انہیں بھی اپنے گھروں یا کسی مخصوص آئسولیشن سینٹر میں مقیّد رہناپڑتا ہے۔ نتیجتاً ایک موذی متعدی بیماری کے مریض روز بروز بڑھتے جاتے ہیں جبکہ ان کا علاض کرنیوالے دن بدن کم ہوتے جاتے ہیں۔(ج) کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری کے نفسیاتی اثرات کافی شدید ہیں جو بیمار ڈاکٹرز ، نرسوںاور پیرا میڈیکل وسینیٹری سٹاف کے خاندانوں کے لیے سنگین مسائل کا سبب بنتے ہیں۔بیماری کے دوران اور اس سے نجات پانے کے بعد بھی لاتعداد نفسیاتی و معاشرتی مسائل ان لوگوں کی پیشہ ورانہ اہلیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔(د) علاج پر اٹھنے والے اخراجات سے پیدا ہونے والی معاشی پیچیدگیاں بھی ان افراد کے لئے مشکلات کا باعث بنتی ہیں۔ یہ معاملات حکومت کی فوری توجہ کے طالب ہیں۔ ویسے بھی یہ بات تعجب خیزہے کہ وہ تربیت یافتہ افرادی قوّت جو اس خطرناک بیماری سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے اُسی کی حفاظت کا کما حقہ بندوبست نہ کیا جا سکے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دشمن کے بے شمار تیغ برداردستوں کے مقابل ہمارے ُسورما ایستادہ توہوں لیکن ان کے پاس نہ ڈھالیں ہوں اور نہ تلواریں!
چنانچہ ضروری ہے کہ : (1)حکومت اور ڈاکٹرز باہم مل بیٹھ کر ٹھوس منصوبہ بندی کریں جس سے ڈاکٹر ز اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر عملے کو بیماری سے بچنے میں مدد مل سکے ۔ (2) وفاقی منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوارڈینیشن اسلام آبادکے افسران، چاروں صوبوں کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹس ،پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ،پاکستان نرسنگ کونسل ،پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن اور اسی طرح کے دیگر اداروں نما ئندوں کے ساتھ مل کرایک جامع پالیسی ترتیب دیں جس کے تحت ڈاکٹرز ،نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف کو فوری طور پرحفاظتی ساز و سامان فرا ہم کیاجائے۔ (3)کرونا وائرس کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پرایسے افراد کی ٹیسٹنگ کی جائے تاکہ بیماروں کی بابت درست معلومات حاصل کی جا سکیں اور ان کے علاج کیا جاسکے۔ (4) ہیلتھ کیئر صنعت کے لیے بہترین بین الاقوامی قوائد کی روشنی میں مربوط پالیسی پروٹوکولزتشکیل دیے جائیںجن کی پابندی کرتے ہوئے ملک کے تمام ہسپتالوں میں اس بیماری کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔(5) پالیسی اور پروٹوکولز بننے کے بعدمتعلقہ خواتین و حضرات کی ٹریننگ کا اعلیٰ پیمانے پر بندوبست کیا جائے ۔ (6) تمام ہسپتالوں کو پابند کیا جائے کہ میڈیکل فضلے کوتلف کرنے کا انتظام جدید ٹیکنالوجی کے اصولوں کے مطابق کریں اور اس سلسلے میں حکومت کو آگاہ کریں۔ (7) تمام پرایئویٹ ہسپتال متعلقہ حکومتی افسران کو یہ سرٹیفیکیٹ پیش کریں کہ انھوں نے اپنے تمام معالجین، نرسوں، پیرامیڈیکل و سینیٹری سٹاف اور دیگر عملے کا کرونا وائرس ٹیسٹ کروا لیا ہے اور انھیں مخصوص پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ (پی پی ای) فراہم کر دئیے گئے ہیں۔ایسا نہ ہو تو ہسپتال سِیل کر دیا جائے۔