اسلامی تہواروں کا بنیادی مقصد باہمی ایثار و محبت کے جذبات کو فروغ دیا جانا ہے ۔رمضان میں ہر نیکی کا اجر و ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اس لیے رمضان شروع ہوتے ہی صاحب حیثیت مسلمان زکوٰۃ,خیرات اور صدقات کے ذریعے معاشرے میں موجود مسکین,غریب اور مستحق مسلمان بھائیوں کی مدد کرتے ہیں۔روزے جب شروع ہوتے ہیں تو گھروں میں موجود چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے معصوم بچے بھی روزہ رکھنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔شام کو افطاری کے موقع پر سب گھر والے ایک دستر خوان پر جمع ہوتے ہیں جو ان کے رزق میں اضافے کا سبب بنتا ہے ۔چاند دیکھنے کی جتنی خوشی بڑوں کو ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ یہ خوشی بچوں کو ہوتی ہے ۔کیونکہ ان کے ذہن میں صبح عید پڑھ کے عیدی وصولی ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جتنے خوش عید والے دن بچے ہوتے ہیں بڑے ہو بھی نہیں سکتے ہیں۔اپنے باپ بڑے بھائیوں سے بار بار عیدی کا تقاضہ کرتے یہ معصوم پھول اپنے چہروں پر معصوم مسکراہٹ کے کئی رنگ سجائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اپنے کھلونے اور کھانے پینے کی چیزیں نہ جانے کس جذبے سے دوسرے بچوں سے شئیر کیے چلے جاتے ہیں۔ روایت رہی ہے کہ بہت سے پاکستانی جو روزی روٹی کے لیے شہروں میں بس جاتے ہیں وہ چار پانچ دن کے لیے اپنے آبائی گاوں کو پہنچ جاتے ہیں۔لیکن ا س بار وبا کی وجہ سے سرکار نے پبلک ٹرانسپورٹ بند کر دی لیکن اس کے باوجود لوگ کسی نہ کسی طرح اپنے پیاروں سے ملنے اپنے آبائی علاقوں کو پہنچنے میں کامیاب رہے۔آبائی علاقے میں عید منانے کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف ہمیںاپنے سگے رشتہ داروں کے ساتھ وقت بتانے کا موقع ملتا تو ساتھ ہی اپنے بچپن کے ساتھیوں اورسکول و کالج کے فیلوز سے بھی ملاقات کی راہ نکل آتی ہے ۔ میں تو کہتا ہوں کہ عید اللہ پاک کا بہت بڑا تحفہ ہے ۔کہ شہروں میں روزی روٹی کے لیے آ بسنے والے میرے جیسے لوگ کچھ دیر کے لیے ہی سہی لیکن بچپن کے ساتھیوں سے مل کر قدرت کے حسیں نظاروں کے درمیاں کچھ وقت ہر طرح کی پریشانیوں سے ہٹ کر گزار لیتے ہیں۔
اس سال بہت خوشی کی بات ہوئی کہ سارے ملک میں ایک ہی دن سب نے روزے رکھنے شروع کیے ۔جس قوم کو قران میں غور و فکر کی ترغیب دی گئی۔جس قوم کے لوگوں نے دنیا کو سائنس کی تعلیم دی تھی ۔ہر سال رمضان کے شروع اور عید کے موقع پر پاکستانیوں کو گومگو کی کفیت میں رکھا جاتا ہے ۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے یہاں مذہبی تہواروں کا اعلان حکومت ِ وقت کو کرنا چاہیے۔لیکن کیا کیجیے کہ انتہائی محترم مفتیان صاحب کئی دہائیوں سے ملک کے عوام کو تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ٹھیک ہے چاند کو دیکھنے کا ثواب ہے لیکن جب دور بین سے ہی دیکھنا ہے اور موبائل فون سے ملنے والی شہادتوں پر یقین کرنا ہے تو موسمیاتی نظام سے مدد لینے میں کیا قباعت ہے ۔چاند دیکھنے والی یہ کمیٹیا ںاب ختم کر کے حکومت کو علما کرام کو اعتماد میں لیتے ہوئے کوئی ایسا انتظام کرنا چاہیے کہ عوام سارے مذہبی تہوار ایک ہی دن منا سکیں۔اب بہت ضروری ہو چکا ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کا رخ تعلیم ,سپورٹس اور ٹیکنالوجی کی طرف موڑ دیں ۔
ہماری بہادر افواج اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے دشت گردی کو شکست دے دی ہے اب یہ سوچنا ہے کہ ہجوم کو قوم کیسے بنانا ہے ،کیسے لوگوں کی اخلاقیات کو بہتر کرنا ہے ۔اس بارٹرانسپورٹ بند تھی لیکن ماں جی نے کہا کہ چونکہ تعلیمی اور کاروباری ادارے کافی دن بند رہیں گے اس لیے عید گاوں میں ہی کرنی ہے ۔حکم کی تعمیل کرتے ہوئے گاوں پہنچے اورشام افطاری کے بعدکچھ دیر انتظار کیا کہ شاید کہیں سے چاند نظر آنے کی خوش خبری ملے اور ہم چاند رات کی یادیں تازہ کر سکیں لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔بارش نے موسم کو اتنا خوشگوار بنا دیا تھا کہ پتہ ہی نہ چلا کہ ماں جی سے باتیں کرتے کرتے نیند آگئی۔پھر رات بارہ بجے کے قریب نصف بہتر نے آجگایا کہ ٹی وی والے بتا رہے ہے کہ چاند نظر آگیا ہے صبح عید ہو گی ۔صبح سویرے میٹھی سویاں کھانے کے بعد عید کی نماز پڑھنے کے بعد بہت سے رشتہ داروں،دوستوں اور گاوں کے لوگوں سے سلام دعا ہوئی تو لگا جیسے روح ایک بار پھر تازہ ہو چکی ہے ۔نکھری نکھری فضا معطر‘ ہوا اور سر سبز کھیتوں کی سیر کرتے ہوئے اور بچپن کے ساتھیوں سے ملاقات نے میٹھی عید کا لطف دوبالا کردیا۔
گاوں میں میٹھی عید
May 17, 2021