ففتھ جنریشن وار… پالیسیوں میں لچک کی ضرورت 

بلاشبہ موجودہ دنیا روایتی سے زیادہ غیر روایتی خطرات کا سامنا کر رہی ہے۔  جنگ لڑنے کے طور طریقے بدل گئے ہیں۔  ففتھ جنریشن وار میں اب  ممالک ایک دوسرے سے براہ راست لڑنے کی بجائے پراکسی وار لڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔  سائبر وار، اکنامک بلیک میلنگ  اور کسی بھی ملک کو عالمی سطح پر  سفارتی تنہا کرنے کی جنگ لڑنا مقبول ہوتا جا رہا ہے۔  اسی حوالے سے اگر ہم  امریکا اور روس کی بات کریں  تو براہ راست تصادم کی بجائے معاشی و خارجی سطح پر کامیابیوں کو زیادہ موثر  سمجھا جاتا ہے۔  امریکا تمام تر  اختلافات کے با وجود  چین اور ایران سے بھی براہ راست تصادم کے حق میں نظر نہیں آتا  اور معاشی و اقتصادی طور پر  مضبوط ہونے کو ہی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔  چین کی موجودہ پوزیشن  اس کی اس پالیسی کا نتیجہ ہیں  کہ وہ کسی بھی ملک کے ساتھ  روایتی جنگ کرنے کی بجائے  اپنی معاشی طاقت پر  توجہ دیتا آیا ہے  جس کی وجہ سے آج  اس کا ' بیلٹ روڈ  منصوبہ '  مغربی دنیا و اتحادیوں کی  آنکھوں میں کھٹک رہا ہے  کیونکہ یہ  مسلمہ حقیقت  ہے کہ اس تاریخی منصوبے کے مکمل ہوتے ہی چین پوری دنیا کے ساتھ براہ راست منسلک ہو جائے گا جس سے اس کی معیثت کو زبردست فائدہ پہنچے گا۔  اس کے علاوہ ماہرین اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ  مستقبل میں  معاشی طور پر طاقت ور ملک ہی  خارجہ چیلنجز سے موثر انداز میں نمٹنے اور جنگ کے بدلتے اصولوں سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہو گا ۔ 
 یہاں  پر اگر پاکستان اور بھارت کی بات کی جائے تو اس بات سے انکار ممکن نہیں  کہ آزادی کے بعد سے دونوں  ممالک کے درمیان کبھی بھی خوشگوار تعلقات استوار نہیں رہے ۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑہ خطرہ تصور کرتے ہیں ۔ اسی وجہ سے لاتعداد بار شروع ہونے والے مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوئے۔  دونوں ممالک میں اعتماد کے فقدان کا یہ حال ہے کہ نہ صرف پاکستان کی جانب سے  مکمل کیے گئے کرتار پور کاریڈور کو  بھارت میں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے  بلکہ دوسری جانب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے  ' یوم پاکستان ' پر اپنے پاکستانی ہم منصب کو لکھا گیا خط بھی تنقید کی زد میں آگیا جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان پر بھی بھارت نواز ہونے کا الزام لگایا گیا  جس کا نقصان  مذاکرات کے لیے ساز گار بنائے جانے والی کوششوں کو ہوا۔  دونوں اطراف کی اسی بے جاء تنقید کی وجہ سے دونوں ممالک  کے وزراء خارجہ کی  ملاقات کا اہتمام بھی نہ کیا جا سکا۔  اسی اعتماد کے فقدان کی وجہ سے  ابتک دونوں ممالک کشمیر، سیاچن،  پانی، غربت اور دہشت گردی کے خلاف مشتکہ لائحہ عمل  نہ بنا سکے ہیں ۔    آزادانہ تجزیہ کیا جائے تو  یہ بات سامنے آتی ہے کہ  متعدد بار امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کا جواب بھارت کی جانب سے منفی صورت میں ہی آتا ہے جو امن کا راگ الاپنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اس کا واضح ثبوت پاکستان کی جانب سے ' نیشنل ایکشن پلان ' کی صورت میں انسداد منی لانڈرنگ کے اقدامات اٹھانے کے باوجود فیٹف میں بھارت کی جانب سے پاکستان پر معاشی و اقتصادی پابندیوں کے حق میں آواز اٹھا نا ہے۔ بالکل اسی طرح پاک افغان معاملات میں بھارت کی جانب سے فریق بن جانے کے بعد صورت حال مزید گھمبیر ہو جاتی ہے۔  مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار بطور قوم ہم نے ابتک اپنے ہمسائیوں سے بہترین تعلقات بنانے کی خاطر کیا موثر اقدامات اٹھائے ہیں؟  بھارت کے علاوہ کیا چین، افغانستان اور ایران ہمارے ہمسائے نہیں۔  افغانستان سے ' ڈیورنڈ لائن ' اور ' افغان مہاجرین کی واپسی ' کے  مسائل کے علاوہ کیا ایران  سے  ' پاک ایران گیس پائپ لائن ' جیسے منصوبے  کا  ادھورا رہ جانا ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ظاہر کرتا ہے۔ 'سی پیک ' جیسے اہم منصوبے کا پس پردہ چلے جانا اور ایسے اہم وقت میں چینی وزیر خارجہ کا تہران میں پاکستانی خارجہ پالیسی پر تنقید کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے  کہ  ہم  واقعی اب تک اپنی داخلی،  معاشی و اقتصادی اور خارجہ پالسییوں میں بڑے پیمانے پر بہتری نہ لا پائے ہیں۔  بطور قوم اب تک ہم اپنی پالیسیوں میں جدت لانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔  موجودہ چیلنجز اس بات کی جانب اشارہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ماضی  کی ہماری پالیسیاں موثر اور نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی ہیں جس کی وجہ سے آج مملکت خداداد بے شمار  اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔  یہی وجہ  ہے کہ چند ممالک کے علاوہ کوئی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کر رہا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سیاسی افراتفری اور پالیسیوں میں عدم توازن کے باعث گزشتہ سالوں میں کئی دوست ممالک نے اپنا سرمایہ پاکستان سے دوسرے ممالک منتقل کیا۔ لہذا بطور قوم اب یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے کہ ہمیں اپنی پالسییوں میں جدت لانا ہو گی۔  ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ اگر ہم اب اپنی پالیسیوں میں تبدیلی اور جدت نہ لائے تو دنیا سے بہت پیچھے وہ جا ئیں گے۔  پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ اگلے 25 سالوں تک تعلیم اور صحت میں سب سے زیادہ فوکس کریں گے جو کسی بھی قوم کے اعتماد مین ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے ۔  یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی شرح خواندگی اس کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔  ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ  کہ دشمن ہمیشہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرتا رہے گا۔ مگر ہمیں صرف د شمن  پر  تنقید  کرنے کی بجائے  اپنی پالیسیوں میں لچک کا مظاہرہ کرنا  سیکھنا ہو گا۔  معیثیت کو ٹریک پر لانا ہو گا جس کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی ملک یا  معاملے کو فوکس کرنے کی بجائے ملکی مفاد کی خاطر  جرات مندانہ فیصلے کیے جائیں۔
 اس کے علاوہ دوست ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دینے سے پہلے     سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے   اوورسیز پاکستانیوں کو دولت ملک میں لانے کی ترغیب دینا ہو گی جس کے لیے  لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال  کو مزید بہتر کرنا ہو گا۔  آرمی چیف جنرل قمر جاوید با وجوہ کا  یہ بیان کہ ' ہمیں پہلے گھر کو درست کرنا ہے ' اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ملکی معاشی و اقتصادی صورت حال بہتر کیے بغیر  داخلہ و خارجہ لیول پر بڑے فیصلے نہیں لیے جا سکتے لہذا اب   ضروری ہے کہ ان تمام عوامل کی روشنی میں پالیسی ساز ادارے  ففتھ جنریشن وار کے اس دور جدید میں  جلد از جلد   ملکی مفاد میں  نئی لچک دار پالیسیاں مرتب کریں  تبھی پاکستان مسقتبل کے خطرات سے موثر انداز میں نمٹنے کے قابل ہو سکے گا۔   

ای پیپر دی نیشن