لینڈ مافیا کا بے رحمانہ سلوک

مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیا لکھوں اور کس کے متعلق لکھوں کیونکہ جو کچھ بھی لکھا جاتا ہے وہ زیادہ تر معاشرتی برائیوں یا خامیوں کے متعلق ہوتا ہے جس سے حکومت وقت کو اقتدار کی چھتری کے نیچے ہونے والی سرگرمیوں کی خبر ملتی رہتی ہے اور یوں اسے اپنا قبلہ درست کرنے میں آسانی رہتی ہے کونسی ایسی معاشرتی برائی ہے جس کا سد باب ضروری ہے جبکہ پچھلی حکومتوں کے ملک کو تباہی کے اس مقام پر پہنچا دیا جس کو عوام کی ضروریات کے مطابق بھی وقت پر درست کرنا انتہائی کٹھن مرحلہ ہے۔ آپ کسی محکمے کو اٹھا لیں اور اس کا بغور جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس کو کون چلا رہا ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ کو ہی لے لیں اور دیکھیں کہ کیا ملک کی عدلیہ صحیح کام کر رہی یا اس میں بھی سقم پایا جاتا ہے حالانکہ کسی ملک کی ترقی اور بقا کی ضامن عدلیہ ہی ہوتی ہے اگر عوام کو انصاف بر وقت اور بلا تفریق ملتا رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں کسی قسم کی کوئی افراتفری پیدا ہو کیونکہ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں انصاف کے سخت تقاضوں سے گزرنا پڑے گا۔ ابھی چند دن پہلے ہی سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے متعلق جو فیصلہ دیا میں سمجھتا ہوں وہ ملکی تاریخ میں کئی حوالوں سے یاد رکھا جائے گا ہے ۔ دین اسلام میں جو مقام ایک جج کا ہے وہ کسی اور کا نہیں اور اسی لئے ایک جج اللہ کے بہت نزدیک ہوتا ہے اور اس کے اس رتبے کے باعث اس سے باز پرس بھی سخت ہو گی لیکن  ہاں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم سب ہر طرح کی باز پرس سے آزاد ہیں۔ عدلیہ کو تو ایک مثالی کردار ادا کرنا چاہیے۔  ایک عوامی سروے کے مطابق دنیا کے 128بہترین عدالتی نظام میں پاکستانی عدالتوں کا 
نمبر 121 ہے ترقی ہو تو ایسی ہو۔  ایک اور مثال لے لیتے ہیں کہ ملک میں پراپرٹی مافیا شتر بے مہار کی طرح ہے۔ غریب لوگوں کو اقساط کا جھانسہ دے کر خصوص طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنے جال میں پھنسا کر پھر انہیں تڑپنے بھی نہیں دیتے۔ چند دن پہلے مجھ عاجز سے برطانیہ میں مقیم ایک شخص نے درخواست کی کہ میں نے راولپنڈی میں ایک مال  میں دکان خریدی جسکی ڈائون پیمنٹ کے بعد ایک قسط بھی جمع کرائی مگر کرونا کی وبا کی وجہ سے حالات اتنے خراب ہو گئے کہ مزید کوئی قسط دینے سے قاصر ہوں چناچہ میں نے ان سے کئی بار اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہوئے درخواست کی کہ کرونا کی وجہ سے میرا ذریعہ معاش ٹھپ ہو کے رہ گیا جسکی وجہ سے میں مذید قسط ادا  نہیںکر سکتا لہذا میری مجبوری کو سمجھتے ہوئے   رقم مجھے واپس کی جائے تاکہ میں اپنے معمولات زندگی چلا سکوں لیکن وہ اب وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قانون وضوابط کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور  دو سال گزرنے کے باوجود مجھے رقم واپس نہیں کر رہے جسکی وجہ سے میری پریشانیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ ہم یہ درخواست  وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور مشیر پی ایم تو اوور سیز ذولفی بخاری تک پہنچا رہے ہیں  اللہ کرے ہمارے دوست کا مسئلہ حل ہوجائے۔ گویا ملک میں ہر سطح پر منظم انداز میں راہزنوں کی شکل میں کئی راہبر بیٹھے ہیں جنہیں قانون کی بھر پور سرپرستی حاصل ہے کیونکہ اگر ملک میں عدلیہ صحیح کام کر رہی ہوتی تو ان لوگوں کو کوئی ڈر ہوتا لیکن وہ لوگ جو اتنے بڑے پروجیکٹ چلاتے ہیں پہلے وہ اپنی خباثتوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔  سمجھ نہیں آرہی کہ ہم اپنے دوست کی کیسے مدد کر سکتے ہیں  دوست کی خواہش پر میں یہ چند الفاظ اس یقین کے ساتھ تحریر  کرہا ہوں کہ شائد کسی ذمہ دار حکومتی ذمہ دار  کی نظر پڑ جائے اور اس پردیسی کا مسلہ حل ہو جائے۔ لیکن جس ملک میں کسی غریب کی جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں وہاں  غریب کی فریاد کون سنے گا۔ حکومت سے درخواست ہے  کہ اگر آپکو اپنی عوام کا درد ہے تو اپنی عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے 

ای پیپر دی نیشن