عمران خاں کی سیاست کے حوالے سے میرا تو شروع دن کا یہی نتیجہ ہے کہ وہ وفاقی جمہوری پارلیمانی نظام اور آئین و قانون کی حکمرانی کے ہرگز قائل نہیں۔ ان کے دل میں حکمرانی کا جو سودا سمایا ہوا تھا وہ مغل بادشاہوں کی ظلِ الٰہی ، باادب، باملاحظہ، ہوشیار کے تصور والی حکمرانی تھی جس میں شاہ معظم کے سامنے التجائیا الفاظ بھی اونچی آواز سے بولنا ان کی بے ادبی قرار پاتا ہے۔ مغل بادشاہوں کے طرزِ حکمرانی کے قصے تو ہم نے بس کتابوں میں ہی پڑھ رکھے ہیں، عمران خاں کی اودھم مچانے والی اپوزیشن کی سیاست ، ان کے چار سالہ دور اقتدار میں ان کے طرزِ حکمرانی اور اب گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری ان کی بلیم گیم اور عملاً ہذیانی کیفیت والی سیاست کا ملاحظہ و مشاہدہ تو ہم اپنی جیتی جاگتی آنکھوں کے ساتھ کر رہے ہیں جس کا لب لباب یہی ہے کہ عمران خاں کو اپنے اقتدار کے سوا کچھ بھی بھلا محسوس نہیں ہوتا۔ وہ تمام ریاستی اداروں کو اپنے اقتدار کا محافظ بنا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں اور اقتدار وہ کسی سسٹم کے تابع نہیں، اپنی من مانی کے مطابق کرنا چاہتے ہیں جس میں انہیں چیلنج کرنے والا کوئی کہیں دور دور تک نظر نہ آئے۔ اگر کوئی جان کی امان پا کر بھی ان سے کسی ایشو پر اختلاف کی جرأت کرے تو ان کی رعونت بھری سوچ اسے پتھر کا آدمی بنتا دیکھنا چاہے گی۔
حد تو یہ ہے کہ عمران خاں صاحب اپنی ’’عقل کُل‘‘ کے مقابل کسی سوچ کو پنپتا نہیں دیکھ سکتے۔ خود کو ہی سچا مسلمان، محبِ وطن اہلِ پاکستان اور پاکستان سمجھتے ہیں۔ باقی اس دھرتی پر جس کا بھی وجود ہے وہ ان کے نزدیک نجس ہے، مردود ہے، کافر ہے، غدار ہے۔ اسی طرح ظلِ الٰہی والی حکمرانی میں سرکاری وسائل اور قومی خزانہ اپنی دسترس میں رکھنا اور جیسے چاہے اسے استعمال کرنا اپنا یکا و تنہاء حق سمجھتے ہیں جس کا استعمال چوری، ڈکیتی اور لوٹ مار کے زمرے میں ہرگز نہیں آتا جبکہ ان سے پہلے ان کے گمان میں سب چور ڈاکو لٹیرے ہی اقتدار میں آتے رہے ہیں جن کی گردنیں ناپنا وہ اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ آئندہ بھی ان کے اقتدار کے لئے کسی قسم کا چیلنج نہ بن سکیں۔ اسی نخوت و تکبر والی سوچ کے باعث وہ اپنی ذات اور اپنے اندھے عقیدت مندوں کے سوا کسی کو انسان کے درجے پر فائز ہونے کا بھی مستحق نہیں گردانتے جن کی حیثیت ان کے پائوں کے نیچے کچلے مسلے جانے والے کیڑے مکوڑوں کی ہے۔
اور پھر پارلیمنٹ، عدالت، الیکشن کمشن اور سکیورٹی فورسز سمیت جو بھی ریاستی آئینی ادارہ ان کے تابع نظر نہ آئے وہ بھاڑ میں جائے اور ملک نے ان کی مرضی کے مطابق نہیں چلنا تو وہ بھی بھاڑ میں جائے (نعوذ باللہ)
یقین جانیئے کہ میں یہ باتیں کسی تعصب و کدورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاست و قانون کے طالب علم کی حیثیت سے اپنے گہرے مشاہدے کی روشنی میں کر رہا ہوں اور عمران خاں صاحب نے بالخصوص اقتدار سے الگ ہونے کے بعد جو طرزعمل اختیار کیا ہے وہ میرے اس مشاہدے پر مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے۔ اگر میرا شمار بھی ان کے اندھے عقیدت مندوں میں ہوتا تو مختلف اوقات میں اور مختلف مقامات پر کئے گئے ان کے پیغمبری کے دعوئوں سے اختلاف کا اظہار کرنے والے کسی بھی شخص کو بلاسوچے سمجھے اور بے دریغ قتل کرنے سے بھی گریز نہ کرتا جیسا کہ ان کے بعض اندھے عقیدت مند اور پیروکار عقل سے عاری ایسے اقدامات اٹھا بھی چکے ہیں جنہوں نے ’’حبِ عمر انتو‘‘ میں اپنے گھر اجاڑ دئیے ہیں۔ اپنے خاندانوں، عزیزوں، رشتہ داروں، دوستوں اور اڑوس پڑوس تک میں دشمنیوں کی گہری گرہیں ڈال دی ہیں جو آئینی اور جمہوری طریقے سے ان کے خلاف پیش ہونے والی عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے اور ان کے اقتدار کو بچانے کے لئے ریاستی اداروں کے آئین کے تقاضوں کے برعکس ان کے ساتھ کھڑا ہونے کی مجہول خواہش کو بھی برحق اور ان کی یہ خواہش پوری نہ کرنے والوں کو سازشی اور غدار سمجھتے ہیں اور ان کے مخالفین کے آئینی اور جمہوری طریقے سے بھی اقتدار میں آنے پر اپنا غصہ پاکستان پر ایٹم بم مار کر نکالنے کی ان کی سوچ پر داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہیں۔
عمر انتو سیاست کے اسی طرزِ عمل نے میرے ذہن میں تین سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے اپنی حکومت کے خلاف ہونے والی مبینہ سازش سے اس سازش کو ناکام بنانے کا اختیار رکھنے والے ادارے کو آگاہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرا دیا کہ انہوں نے اس ’’سازش‘‘ کو ناکام نہ بنایا یعنی ان کی آئینی اور جمہوری طریقے سے گرنے والی حکومت کو بچانے کے لئے اپنا کندھا فراہم نہ کیا تو ملک تباہی کے دلدل میں جا دھنسے گا۔ پھر کیا اس ادارے نے ماورائے آئین طریقے سے ان کا اقتدار بچانے سے گریز کر کے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے گریز کیا؟ اور آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کر کے کیا وہ ادارہ ان کی حکومت گرانے کی مبینہ سازش کا حصہ بنا ؟۔ اور کیا ان کی حکومت کو اس کے پیدا کردہ گھمبیر عوامی مسائل سمیت ہر صورت بچائے رکھنا اس ادارے کی ذمہ داری تھی۔
دوسرا سوال یہ کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے جو ارکان اسمبلی ان کے بقول فارورڈ بلاک تشکیل دے رہے تھے اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہو کر اسے مضبوط بنانے کی ترغیب قبول کر رہے تھے ، کیا وہ لوٹا گردی کے مرتکب نہیں ہو رہے تھے اور کیا وہ اس ملک اور معاشرے کے متبرک و مقدس شہری بن گئے جنہیں عمران خاں کے بقول ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ اگر کسی نے فی الواقع ایسا کیا تو کیا ان کا یہ اقدام لوٹا گردی کے آگے بند باندھنے کی کوشش نہیں تھی۔ اور تیسرا اور آخری سوال انتہائی سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے جو عمران خاں کی اس بات پر میرے ذہن میں ہتھوڑے برسائے چلا جا رہا ہے کہ ا گر آپ نے میرے ’’ان جیسے‘‘ مخالفین ہی کو اقتدار میں لانا تھا تو اس سے بہتر تھا کہ ملک پر ایٹم بم چلا دیتے۔ میرا یہ سوال قومی اسمبلی کے آدھے سے زیادہ ارکان کو ملک سے غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے والے پی ٹی آئی کے ان اکابرین سے ہے کہ کیا اس ملک کو اپنا اقتدا ر جاتے دیکھ کر ایٹم بم سے تباہ کرنے کی اعلانیہ سوچ رکھنے والے ان کے ظلِ الٰہی لیڈر کو ان کی جانب سے غداری کا سرٹیفکیٹ نہیں ملنا چاہئے یا وہ بھی اپنے لیڈر کی اندھی تقلید میں ملک کے ساتھ ایسا ہی کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔
جناب! یہ سارے سوالات ایسے ہی میرے دل میں پیدا نہیں ہو گئے بلکہ عمران خاں صاحب خود روزانہ اپنے پبلک جلسوں میں یہ باتیں کر کے میرے ہی نہیں ، میرے جیسے لاکھوں، کروڑوں شہریوں کے دلوں میں اٹھا رہے ہیں جو اس وطنِ عزیز میں آئین و قانون کی حکمرانی، انصاف کی عملداری اور آئین کے تحت قائم سسٹم کے استحکام کی فکر مندی رکھتے ہیں۔
آپ اپنے اقتدار کی طوالت و استحکام کی خاطر ہر ریاستی آئینی ادارے کو اپنے اشارۂ ابرو کی تعمیل کا پابند بنانے اور اپنا اقتدار جاتا دیکھ کر اس وطنِ عزیز سمیت سب کچھ ملیامیٹ کرنے کی سوچ رکھتے ہوں اور کوئی اس مکروہ سوچ کے آگے آپ کو پر مارتا بھی دکھائی نہ د ے۔ تو پھر اس ملک اور قوم کو آپ کے ساتھ کیا کرنا چاہئے اور آئین و قانون کی عملداری کو آپ کے لئے کون سا راستہ نکالنا چاہئے، اس کا جواب بھی یقینا آپ کو نوشتۂ دیوار ملے گا۔ آپ خاطر جمع رکھئیے، بے شک آپ نے اپنے اندھے عقیدت مندوں کے ذہن خراب کر کے اس معاشرے میں بہت سارا بگاڑ پیدا کر لیا ہے مگر بھائی صاحب! ملک کے حالات اتنے بھی خراب نہیں کہ یہاں ہر شر کو پروان چڑھنے اور شرف انسانیت والی تمام اقدار کو تہس نہس کرنے کا آزادانہ موقع ملتا رہے۔ ملک میں آئین و قانون کی عملداری ہے تو سب کو اس کے تابع رہنا ہو گا۔ معاف کیجئے۔ یہاں خالصہ راج کی سوچ ہرگز پروان نہیں چڑھ سکتی۔
٭…٭…٭