16مئی 2015ء مصری تاریخ کاایک سیاہ روز تھا جب فوجی ڈکٹیٹر جنرل السیسی کی تابع مہمل ایک فوجی عدالت نے جبری برطرف مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی سمیت اخوان المسلمون کے 106 رہنمائوں اور کارکنوں کو سزائے موت کا حکم دیا۔ ان پر 2011ء میں ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے خلاف عوامی بغاوت کے دوران جیل توڑنے کا الزام تھا۔سزائے موت پانے والوں میں اخوان المسلمون کے مرشد عام ، ان کے نائب خیرط الشاطر اور دیگر مرکزی رہنما بھی شامل تھے۔ مرسی کی سزائے موت پر حتمی فیصلہ 2جون کو ہوا۔سابق مصری صدر محمد مرسی کو لوہے کے پنجرے میں عدالت لایا گیا اور عدالت نے ان کی موجودگی میں فیصلہ سنایا ۔ عدالتی حکم سنتے ہی مرسی نے مکا لہرایا اور فتح کانشان بنایا۔ عدالتی حکم کی خبر عام ہوتے ہی چند گھنٹوں بعد سینائی میں مسلح افراد نے دو ججوں، ایک پراسیکوٹر اور ان کے ڈرائیوروں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا۔ 16مئی 2015ء کو ترک صدر طیب اردوان نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے مغربی منافقت قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ’’مصر فرعون کے دور کی طرف واپس جارہا ہے، مغرب تو سزائے موت کو ختم کرانا چاہتاہے‘‘۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عدالتی فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ظاہر ہوتا ہے کہ مصر کا عدالتی نظام انتہائی ناقص ہے،حزب اختلاف کے خلاف سزائے موت مصری حکام کا پسندیدہ ہتھیار بن چکاہے، عدالت نے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے ، مجموعی طور پر غیر منصفانہ ٹرائل کیا گیا ، مرسی کو وکیل کی سہولت بھی نہیں دی گئی‘‘۔محمد مرسی کے حامیوں کا شدو مد کے ساتھ کہناتھا: ’’مرسی کے خلاف لگائے گئے الزامات کے محرکات سیاسی ہیں اور عدلیہ فوجی بغاوت کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال ہو رہی ہے‘‘ ۔ یاد رہے کہ مصری عدالت نے 21 اپریل 2015ء مصر کے سابق منتخب جمہوری صدر محمد مرسی کو 20 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ3 جولائی 2013 ء کومصری آرمی چیف جنرل السیسی نے فوجی بغاوت کے ذریعے مصر کے پہلے منتخب،جمہوری اور عوامی صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور انہیں صدارتی محل میں نظربند کر دیا ۔ فوجی طیاروں نے فضا اور فوجی ٹینکوں نے سڑکوں پر گشت شروع کر دیا۔ صدر مر سی اور دیگر رہنمائوں کے ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی گئی ۔ فوج نے سرکاری ٹی وی پر قبضہ کے بعد نشریات بند کر دیں اور عملے کو باہر نکال دیا جبکہ مصری فورسز کے کریک ڈائون میں اخوان کے ہزاروں حامیوں کو بے دریغ قتل کیاگیا۔مصر کا مرکزی بینک غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیا گیا اور مخدوش صورتحال کے پیش نظر کئی ملکوں نے سفارتی عملے کو بھی واپس بلا لیا تھا۔ افریقن کونسل نے مصر کی رکنیت معطل کر دی۔فوجی بغاوت سے قبل صدر مر سی نے قوم سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ ’ملکی حفاظت کا حلف اٹھا یا ہے، اسے پورا کروں گا، اندرونی یا بیرونی ڈکٹیشن قبول نہیں، شفاف انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں، مرتے دم تک آئینی حق سے دستبردار نہیں ہوں گے، ہر صورت جمہوریت اور آئین کا تحفظ کیا جائے گا‘۔
اخوان المسلمون نے فوجی بغاوت کے خلاف مزاحمت کا اعلان کرتے ہوئے عالمی برادری، امریکہ، مغرب اور عالمی اداروں پر واضح کیا کہ ان کی ’آزادی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے، اس کے لئے وہ کسی بھی قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں‘۔ اگلے روز ہی مصر میں صدر مرسی کو اقتدار سے ہٹانے اورفوجی مداخلت کے خلاف لاکھوں افراد کے مظاہروں کا طولانی سلسلہ شروع ہو گیااورخلاف روایت الاخوان المسلمون کے مرشد عام محمد بدیع منظر عام پر آ گئے ۔ انہوں نے قاہرہ میں رابعۃ العدویۃ مسجد کے قریب لاکھوں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فوجی مداخلت کو غیر قانونی اور بغاوت قرار دیا اور کہا ’’ فوج بیرکوں میں واپس جائے، ہماری جنگ فرد واحد کیلئے نہیں مصریوں کی آزادی کیلئے ہے،ہماری انقلابی تحریک پر امن ہے اور انشااللہ ہماری یہ پر امن تحریک بندوقوں اور ٹینکوں سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ثابت ہوگی، فوج اقتدار عوام کو واپس کرے ‘‘۔ڈاکٹر بدیع نے ببانگ دہل مطالبہ کیا : ’’ جرنیلو، مصر مصریوں کو واپس کر دو!‘‘… مرسی کی منتخب اسلام دوست حکومت کا ختم کیا جانا افسوس ناک ضرور تھا لیکن بہت زیادہ حیرت انگیز نہیں کیونکہ اول روز سے ہی حسنی مبارک کی باقیات اور دیں بیزار،آمریت نوازلبرل فسطائی ان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے۔ ارباب خبر ونظر جانتے ہیں کہ 2011 ء سے 2013ء تک صرف 2 سال کی مدت میں اخوان المسلمون نے 5 مرتبہ عوام سے ووٹ حاصل کیا اور عوامی تائید سمیٹی ۔ یہ بات بھی ریکارڈ پرہے بد ترین تشدد اور فسطائی حربوں کے باوجود تادم تحریر مصری عوام اخوان اورمحمد مرسی کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اخوان قیادت کو اب بھی زیر زمیں مصری عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اذیت ناک حقیقت تو یہ ہے کہ جولائی 2013 ء میں مصری آرمی چیف جنرل السیسی کے جمہوریت دشمن اقدام کے خلاف عالم اسلام اور امریکہ و مغرب کے مقتدر طبقات نے بد تر ین بے حسی کا مظاہرہ کیا۔
کون نہیں جانتا کہ 1952ء سے نومبر 2011ء تک مصر اور مصری عوام بدترین آمریت کے چنگل میں جکڑے رہے۔ اگست 2012ء میں مصری عوام نے محمد مرسی پر اعتماد کرتے ہوئے اُنہیں مصر کا صدر منتخب کیا مگر اُنہیں یکسوئی کے ساتھ صرف 8 ماہ تک ہی کام کرنے دیا گیا۔ لبرل اور سیکولر جماعتوں کو اخوان المسلمون کا برسر اقتدار آنا کسی طور قابل قبول نہیں تھا۔ مصر کی کینگرو کورٹس نے صدر مرسی کو مصر میں جمہوریت کے احیاء کی کوششوں میں کامیاب ہونے کی سزا دی۔ ان عدالتوں کے ججوں نے صدر مرسی اور اُن کے حامیوں کے لیے ہی موت کی سزا کا فیصلہ نہیں سنایا بلکہ جمہوری اقدار و روایات کو پھانسی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ امریکی اور مغربی میڈیا اور دانشورجب بھی عالم اسلام کے کسی ملک میں منتخب جمہوری حکومت یا حکمرانوں کے خلاف سازش، بیرونی مداخلت اور انارکی کو پروان چڑھانے کے لیے وسائل فراہم کریں گے تو مسلم دنیا کے نوجوانوںکے اذہان و قلوب میں یہ بات راسخ ہوجائے گی کہ امریکہ اورمغرب اُن کی پر امن جمہوری جدوجہد کو سبوتاژ کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید صداقت ہے کہ ا مریکہ نے مسلم ممالک میں ہمیشہ ڈکٹیٹروں کا ساتھ دیا اور عوام کے حقیقی نمائندوں کا راستہ روکا ۔ صدر مرسی کو مصر میں جمہوریت کی بحالی، آئین سازی اور قبلہ اول کو آزاد کرانے کے عزم کا اعلان کرنے کے جرم میں آمریت نواز جج پھانسی دینے پر تلے ہوئے تھے اور بھول چکے تھے : قریب ہے یارو روز محشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر…جو چپ رہے گی زبان خنجر…تو لہو پکارے گا آستین کا ۔صدر مرسی مصری کینگرو کورٹس کے فیصلوں کے مطابق شہادت کی جاودانی شاہراہ کے مسافر بن چکے لیکن اب بھی ان کی صدا مصر کی فضاؤں میں گونج رہی ہے: کر گیا کام کٹ کے سر میرا، خون بولا نگر نگر میرا۔