سیاست سے بیزار عوام

ملکی موجودہ صورتحال چاہے وہ سیاسی ہو یا معاشی ہر محب وطن پاکستانی سخت پریشانی کے عالم میں ہے۔آج ہر پاکستانی چاہے اس کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو تناؤ کی اس کیفیت میں انتہائی دکھی ہے لیکن ہمارے سیاستدان اپنی سیاسی دکان چمکانے میں لگے ہوئے ہیں انہیں عوام کی حالت زار یا ملکی معاشی حالات سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رکھے آئے روز جلسوں میں اپنے بیانات سے مسلسل آگ لگانے میں مصروف ہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے تو تمام سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر ایک میثاق معیشت ترتیب دینا چاہئے تھا تاکہ ملک کو اس دلدل سے جس میں وہ دھنس چکا ہے نکالا جا سکتا لیکن بدقسمتی سے انہیں ملکی حالات کی بجا ئے اپنی اپنی کرسی کی فکر ہے۔ 
عام پاکستانی سوچ رہا ہے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت اپنے اقتدار کے تقریباً چار سال مکمل کرنے کو تھی تو اسے مزید ایک سال دینے میں کیا قباحت تھی کیوں اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس حکومت کو چلتا کیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، ملکی معیشت ڈانواڈول ہے نجانے اس میں کیا راز پوشیدہ ہے۔ اگر اپوزیشن نے ایک آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجا تو کیوں سابقہ حکومت سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے ۔اگر اپوزیشن نے ایک سال الیکشن کا انتظار نہیں کیا تو تحریک انصاف بھی سابقہ اپوزیشن کو ایک سال دینے کیلئے تیار نہیں اور اس طرح دونوں حکومتیں سابقہ اور موجودہ ملکی مفاد کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف کرسی کے حصول میں لگی ہوئی ہیں۔ ان دونوں کی لڑائی میںسب سے بڑا نقصان عوام اور ملک کا ہو رہا ہے۔ برداشت کا عنصر ختم ہو کر رہ گیا ہے ایک دوسرے پر ملک سے غداری کے الزام لگائے جا رہے ہیں ۔زبان میں تلخی انتہا کو ہے قتل تک کی سازش کا الزام لگ چکا ہے۔ ایسے حالات میں اندازہ لگائیے کہ ملکی حالات کس نہج پر ہوں گے ۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ دونوں طرف کے سیاستدان ملکی اداروں کو بھی اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھانے کے درپے ہیں ۔آج ہم سب کیلئے لمحۂ فکریہ ہے ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیا ہم یونہی آنکھیں بند کیے اپنی بربادی کا نظارہ کرتے رہیں گے ۔ یقین کیجیے ان مٹھی بھر سیاستدانوں کو 22 کروڑ عوام کا کوئی خیال نہیں آج تک یہ ایسی سیاست ہی نہ کر سکے جس کی بدولت ایک مضبوط نظام ملک کو دے سکتے جس سے ملک ترقی کی جانب سفر کرتے اور عوام خوشحال نظر آتی۔ اس کے برعکس جو بھی اقتدار میں آیا اس نے صرف اپنے بارے میں ہی سوچا اور ان اقدامات سے گریز کیا جس میں برسر اقتدار اپنی حکومت کا عرصہ مکمل کر سکے اور پانچ سال بعد عوام کارکردگی دیکھ کر ووٹ کا فیصلہ کر سکیں۔ یہاں تو ابتداء ہی سے نرالا ہی دستور ہے جب بھی حکومت اقتدار میں آتی ہے تو اس کی اپوزیشن پہلے دن سے ہی اس کی ٹانگیں کھینچنا شروع کر دیتی ہے جس کا اثر عوام پر پڑتا ہے اور وہ عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہتی ہے اور وہ اپنی ساری توانائیاں اپوزیشن کو دبانے میں خرچ کرتی ہے۔
 سیاستدانوں کے اس رویے سے ملکی حالات اس وقت انتہائی پریشان کن ہیں سیاستدانوں کا یہ رویہ ابتداء سے ایسا ہی ہے لیکن اب اس میں بہت تیزی آ گئی ہے اور اب انہوں نے ملکی اداروں کو بھی بدنام کرنا شروع کر دیا ہے۔ سیاستدانوں کو ان خراب حالات کا ادراک نہیں لیکن عوام موجودہ حالات پر بہت دکھی ہیں۔ عراق، لیبیا اور شام کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ ہر پاکستانی ڈرا اور سہما ہوا ہے۔ اپنی مسلح افواج کے بارے پروپیگنڈا وہ کبھی بھی برداشت نہیں کرے گا کیونکہ دشمن فوج اور عوام میں دوریاں پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس طرح کی منفی مہم سے وہ پاکستان کو کمزور کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔مجھے کامل یقین ہے کہ یہ کچھ بھی کر لیں پوری پاکستانی قوم اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاستدان خواہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اپنے طرز عمل کو بدلنا ہو گا صرف اور صرف ملکی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ میری رائے میں اس وقت اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ ایک سال کیلئے صبر کرے اور ایوان میں حکومت سے مل کر ایسی اصلاحات لائے جن سے شفاف الیکشن کی راہ ہموار ہو اورملکی معیشت کو بہتر کیا جا سکے ۔صرف اتحا دو اتفاق ہی سے ملک کو اس بحران سے نکالا جا سکتا ہے اگر یہ ممکن نہیں تو ایسی نگراں حکومت بنائی جائے جو ان سیاستدانوں پر مشتمل نہ ہو اور اسے کم از کم دو سال کام کرنے دیا جائے تاکہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے انتخابی اصلاحات حقیقی طور پر بہتر ہوں نیز ملکی معیشت کو بھی پٹڑی پر چڑھایا جا سکے اور جب ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے اور معیشت کے اعشاریے بہتر ہو جائیں تو صاف اور شفاف الیکشن کرائے جائیں ایسے الیکشن جن پر دھاندلی کا الزام نہ لگایا جا سکے۔ عوام حقیقی طور پر اب ان سیاستدانوں سے بیزار اور آئے روز کے جلسے جلوسوں سے بھی تنگ آ چکے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ایک نگراں حکومت دو سال کے لیے ائے اور دو سال تک ملک میں کوئی جلسہ جلوس، دھرنا نہ ہو صرف عوام کی بہتری اور ملکی مفاد کیلئے کام ہوں۔ اے کاش ! کہ ایسا ہو جائے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...