"حسرتوں کا مجموعہ"

محمد حفیظ 
mh_mughal13@hotmail.com
جس طرح زندگی بہتی ندی کا پانی ہے کچھ جواں حسرتوں کی کہانی ہے جن پر انسان کا نہ کوئی اختیار ہے نہ زور ہے جیسے مست موجوں کی روانی ہے اسی طرح پی ڈی ایم کی حکومت کی ہر خواہش ہی ہیجانی ہے جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پاوں لیکن  نہ ختم ہونیوالی خواہشات پر مبنی اپنے اقتدار کو طول دینے کا ایک  بیدین۔ بے آئین اور لا یعنی قسم  راگ ہے جس پر ناچتی ناگن اک  شیطانی ہے۔ حکومت کی بے بسی کہوں یا ان کی بے راگ راگنی جو کبھی وہ سپریم کورٹ کے خلاف ہوتی ہے۔ کبھی پی ٹی آئی کے خلاف اور کبھی یہ راگنی ان کے اپنے ہی خلاف ہو جاتی ہے جس کا ان کو احساس تک نہیں ہوتا جس سے لگتا ہے یہ حکومت کی نادانی ہے یا عادت نسوانی ہے۔ 
کل جب پی ڈی ایم سپریم کورٹ کے سامنے اپنی پوری طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ہی حکومت کیخلاف یا اپنے ہی خلاف  اتنی تعداد میں لوگ نہ جمع کر سکی جتنے لوگ ایک واحد پارٹی اپنے ایک اشارے پر اکھٹے کر لیتی ہے تو اس میں وہ ان اپنے احکامات کی نفی کرتی نظر آ رہی تھی جو چند دن پہلے اس نے پی ٹی آ?ی کو کنٹرول کرنے کیلئے لاگو کیا تھا مگر آج وہ خود اپنے ہی لکھے کو اپنے تھوک سے صاف کر رہی تھی تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی پاگل شدتِ جذبات  میں اپنے ہی بدن کو اپنے دانتوں سے کاٹ رہا ہے۔ اس سے حکومت کی بے بسی کا عالم عیاں ہو جاتا ہے کہ اس حد سے آگے جانیکا اس کے پاس نہ کوئی راستہ ہے اور نہ ہی اختیار بلکہ ایک کیفیت ہیجانی ہے۔ سو وہ اپنے ہی لاگو کردہ قانون کی جس بیدردی اور بے رحمی سیدھجیاں بکھیر رہی ہے اس پتہ چلتا ہے کہ یہ چراغِ سحری کی وہ پھڑ پھڑاہٹ ہے جو اس کی موت کا پیغام ہوتا ہے جس کے بعد وہ خود بخود ہی بے بسی کیعلم میں بجھ کر کہلاتی آنجہانی ہے۔ 
 سو آج حکومت خود ہی ایک پاگل کی طرح اپنے آپ کو مشورہ دیرہی تھی کہ مظاہرہ ختم کر دو دوسری جانب وہ اس بات پر بھی مصر تھی کہ حکومت سے مشورہ کر کے کو? فیصلہ کیا جا? گا کہ واپس چلے جانا چاہیے یا رکنا چاہیے کیونکہ باراتی بھی خود دلہے والے بھی خود اور دلہن والے بھی بیڈ باجے والے بھی اور دوسرے امور نبھانے والے بھی خود جس سے اس بات کا وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھی کہ حکومت گرانی یا کہ بچانی ہے لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ حکومت صرف لا محدود اختیارات کی دیوانی ہے جس کے ذریعے انہوں نے اللہ کی غریب عوام اپنے اشاروں پر نچوانی ہے اور اسی بات کی آج سپریم کورٹ کو یاد دہانی ہے جو اس ٹولے کی ایک ریت پرانی ہے۔ گویا آج حکومت کی بے بسی کا دھمال دیکھنے کے قابل تھا جس سے وہ اپنے آپ پر بوجھ بنی ہوئی تھی۔ جو اپنے ہی اداروں کی مدد  سے اپنے دوسرے اداروں کے خلاف اس طرح نبرد آزما تھی جیسے کسی دشمن کے خلاف بر سر پیکار ہو۔ ایک ادارے کی گود میں بیٹھ کر دوسرے کو گالی دینا یقین ہمارے دشمن کے لئے باعث تسکین ہو گا۔
یہ جمہوریت ہے یا حکومت کی حالتِ بے سرو سامانی ہے لیکن میر دوستو یقین جانیے میں نے اس سارے کھیل میں جوبات جانی ہے وہ یہ ہے کہ حکومتی ٹولہ اس بات پر بضد ہے کہ ہر الٹیسیدھے ہربے سے اس نے سپریم اداروں سے  اپنی ہر الٹی سیدھی بات منوانی ہے جس میں ان کی بقا ہے اور مضموم عزائم کی زندگانی ہے۔ بات یہ ہے کہ کیا صرف انہی لوگوں کا حق ہے اس ملک پر حکومت کرنیکا اور یہ دیکھ لیں کہ یہ لوگ اپنی بقا کیلئے اپنے اختیارات کی بقاء کیلئے قانون کی حکم عدولی میں بھی کتنے آگے چلے گئے ہیںاور کیا ہم اتنے ہی بے بس ہیں کہ اپنے اپنے حقوق کے لئے بھی نہیں اٹھ سکتے۔ یقین جانو اگر آپ میری بات سمجھ گئیہیں تو جان لو کہ آپ کی اور آپکی آنے والی نسلوں کی زندگی کی ہر صبح سہانی ہے بصورت دیگر یہ زندگی اسیطرح بار گراں ہے یا پھر رہِ زندگی میں غلامی کے بوجھ کی طغیانی ہے۔ سو اٹھو اور  ٹھان لو کہ ہم نے وطن  عزیز سے انگریزوں کی فلسفہ غلامی پر مبنی ہر خرافات  اپنے ہاتھوں جڑ سے اٹھانی ہے اور ہمکو اس وقت تک حقیقی آزادی نصیب نہیں ہوسکتی ہم اس وقت تک صحیح معنوں میں ترقی یافتہ اور خوشحال نہیں ہو سکتے جب تک ملک میں انگریزوں کے غلاموں کی باقی ایک بھی نشانی ہے۔ یہ بات نہ صرف ہم نے خود سمجھنی ہے بلکہ اپنے عزیزو اقارب کو بھی اچھی طرح سمجھانی ہے۔

ای پیپر دی نیشن