مہنگے ترین ممالک کی فہرست میں پاکستان 13ویں نمبر پر۔ مہنگائی کی دوڑ میں سری لنکا کو بھی مات دے دی۔
اپنے ہاں بدترین مہنگائی کو دیکھتے ہوئے غالب خیال تو یہی تھا کہ پاکستان دنیا کا مہنگا ترین ملک ہے جہاں حکمرانوں نے عوام پر بدترین مہنگائی کی افتاد توڑی ہوئی ہے۔ مگر یہ کیا‘ پاکستان سے بھی زیادہ مہنگائی والے ملک موجود ہیں جہاں کے عوام انتہائی مشکل وقت گزار رہے ہیں۔ لگتا ہے وہاں کے اقتصادی ماہرین ہمارے پالیسی بنانے والوں سے بھی گئے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے عوام پر بدترین مہنگائی مسلط کی ہوئی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف دوسری وجہ ہماری ناقص اقتصادی پالیسیاں ہیں۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مان کر حکمرانوں نے عوام پر بدترین مہنگائی مسلط کر دی جبکہ ذخیرہ اندوزں اور منافع خوروں نے بھی عوام کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس ملک کو خدا نے بہترین قدرتی خزانوں سے نوازا ہو‘ جس کی زرخیز زمینیں سونا اگلتی ہوں‘ زیرزمین گیس‘ پٹرول اور کوئلے جیسی نعمتیں دفن ہوں‘ وہاں مہنگائی کا تصور کرنا بھی عجیب سا لگتا ہے۔ یہ سب ہمارے کرم فرمائوں کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو بے چارے عوام بھگت رہے ہیں۔ حیرت تو یہ ہے کہ مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضوں سے آج تک قوم کی حالت نہیں سدھر پائی جبکہ حکمران اشرافیہ طبقات کے دن بدن وارے نیارے ہورہے ہیں۔ ان کا بچہ بچہ ارب پتی بن چکا ہے جبکہ عوام کا بچہ بچہ مقروض ہو چکا ہے۔ کرپشن نے اس ملک کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کئی ملکوں میں کرپشن عروج پر ہے‘ مگر وہ ملکی مفاد پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ کاش! کسی کو تو احساس ہو جائے عوام کی حالت بدلنے کا‘ اور ملک کو سنوارنے کا۔ ایٹمی طاقت ہو کر بھی ہم ہاتھ میں کشکول لئے پھر رہے ہیں جو ایک ایٹمی قوت کے حامل ملک کیلئے انتہائی شرمندگی کا باعث ہے۔ دیکھیں‘ کب اس ملک کی حالت سدھرتی ہے اور لوگ خوشحال ہوتے ہیں۔ فی الحال تو کہیں دور دور آثار نظر نہیں آرہے کہ ہم ان مہنگے ترین ملکوں کی فہرست باہر نکل سکیں۔
٭…٭…٭
خاتون نے اپریشن سے نکالی گئی اپنے گھٹنے کی ہڈی پکا کر کھا لی۔
اپریشن سے نکالی گئی کرکری ہڈی (کارٹلیج) ہسپانیہ سے تعلق رکھنے والی پولاگونو نامی خاتون نے پاستہ میں پکا کر کھالی۔ لگتا ہے کہ یہ خاتون گوشت کھانے کی نہایت شوقین ہے جس نے اپنے گھٹنے کی ہڈی بھی نہ چھوڑی یا پھر اسے کافی عرصے سے گوشت کھانے کو نہیں ملا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے سوچا ہو کہ ڈاکٹروں نے تو یہ ہڈی ضائع کردینی ہے یا پھر اس پر تجربات شروع کر دینے ہیں‘ اس لئے بہتر ہے میں ہی اسے کھا پی کر برابر کر دوں۔ 2017ء میں لیبیا کے معمر قذافی کی حکومت گرائے جانے کے بعد وہاں ایسا انتشار پھیلا کہ وہاں کے شدت پسند گروہوں نے نائیجیریا اور دیگر افریقی ممالک کے پناہ گزینوں کو اغواء کرکے انہیں قتل کرنے کے بعد انکے گوشت کے کباب بنا کر فروخت کرنا شروع کر دیئے۔ اسکی تصویر آج بھی سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہے۔ دنیا میں اب بھی بہت سے آدم خور موجود ہیں جو چوری چھپے انسانی گوشت کھا کر تسکین حاصل کرتے ہیں۔ اس لئے اس خاتون کا بھی کھوج لگانا چاہیے کہ کہیں اس کا تعلق کسی آدم خور قبیلے سے تو نہیں۔ ابھی تو خاتون کی صرف گھٹنے کی ہڈی نکالی گئی جسے خاتون نے خود ہی چبا ڈالا‘ اگر گردہ نکالا جاتا تو وہ اس کا بھی ٹکاٹک کر دیتی۔
٭…٭…٭
سائنس دان نے 74 دن زیر آب رہ کر عالمی ریکارڈ قائم کر دیا۔
ہو سکتا ہے کہ سائنسی اعتبار سے یہ ایک عظیم کارنامہ ہو‘ مگر ہمیں تو اس میں کوئی ایسی خاص بات نظر نہیں آتی جسے ورلڈ ریکارڈ کے طور پر دیکھا جائے۔ سرحدوں کی حفاظت کرنے والے کئی کئی ہفتے آبدوز میں بند ہو کر سمندروں کی تہہ میں رہتے ہیں‘ جبکہ سمندری سطح کی حفاظت کرنے والے بحری جہازوں پر سوارہوکر کئی کئی مہینے زمین کی شکل نہیں دیکھ پاتے۔ اصل کارنامہ تو یہ ہے۔ امریکہ سے تعلق رکھنے والے اس سائنس دان نے زیرآب رہ کر کوئی سائنسی تجربہ نہیں کیا بلکہ محض ریکارڈ قائم کرنے کیلئے زیر آب قائم جولیس انڈرسی لاجز میں رہ کر یہ ریکارڈ بنایا ہے۔ ان کا رہائشی پوڈ بحراوقیانوس کی سطح سے 30 فٹ گہرائی میں موجود ہے جو زیادہ حیرت انگیز نہیں۔ پروفیسر جوزف ڈیٹوری کو ڈاکٹر ڈیپ بھی کہا جاتا ہے۔ لگتا ہے اس سائنس دان کے پاس اب مزید تجربات کرنے کیلئے کچھ نہیں بچا‘ اس لئے 74 دن زیرآب رہ کر ریکارڈ بنانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ دنیا ترقی کی جس معراج پر پہنچ چکی ہے‘ وہ انسانی عقل کو دنگ کرنے کیلئے کافی ہے مگر سائنس دان مزید ترقی کیلئے کوشاں ہیں۔ موبائل فون کی ایجاد نے تو پوری دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ بے شک اس چھوٹی سی ڈیوائس نے دنیا کے فاصلے ختم کر دیئے ہیں لیکن انسانی رشتوں میں اس نے فاصلوں کی جو خلیج پیدا کر دی‘ لگتا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو پائے گی۔ اب برطانوی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی بدولت مستقبل میں روبوٹ انسانوں کو کنٹرول کیا کرینگے۔ جناب! اس چھوٹی سی ڈیوائس (موبائل فون) نے انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑا‘ اس نے اس کا سارا کنٹرول سنبھال لیا ہے‘ مزید انسان کو کتنا لاچار کیا جائیگا؟ ایک چھت کے نیچے بیٹھے چار لوگ ایک دوسرے سے بے گانے ہو کر موبائل فون میں اس طرح مگن نظر آتے ہیں ہیں جنہیں دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ علامہ اقبال نے شاید اسی دور کے بارے میں کہا ہے:
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
٭…٭…٭
اٹلی میں راستے کا گڑھا ٹھیک کرنے والے شخص کو لاکھوں روپے جرمانہ۔
اسے کہتے ہیں نیکی گلے پڑنا۔ ایک تو بے چارے شہری نے بھلا کیا ‘ سڑک پر بنے گڑھے کو بند کرکے گزرنے والوں کو حادثے سے بچایا‘ اس نیکی پر ٹریفک پولیس کی جانب سے اسے 882 یورو (2 لاکھ 73 ہزار پاکستانی روپے سے زائد) کا جرمانہ کر دیا گیا۔ بظاہر تو اس شخص کا یہ عمل قابل ستائش ہی نظر آتا ہے‘ اس پر اسے بھاری جرمانہ کیوں کیا گیا‘ یہ تو وہاں کی انتظامیہ ہی بہتر بتا سکتی ہے۔ ممکن ہے اٹلی کی پولیس نے اس سڑک پر گڑھا اس لئے رکھا ہو تاکہ کسی ’’مرغے ‘‘ کو قابو کرنے میں آسانی رہے۔ جس طرح ہمارے ہاں ناکے لگا کر مرغے پکڑے جاتے ہیں۔ جن کو پکڑنے کیلئے شہر میں جگہ جگہ ناکے لگائے جاتے ہیں‘ وہ شہر میں دندناتے پھرتے ہیںاور پولیس کی آنکھوں سے اوجھل ہو کر ناکوں سے بچ نکلتے ہیں۔اس وقت صوبائی دارالحکومت لاہور وارداتیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ آئے روز اخبارات میں ڈکیتی‘ چوری‘ لوٹ مار‘ راہزنی کی بے شمار خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ انتظامیہ کہاں سوئی ہوئی ہے‘ سمجھ نہیں آتا۔ جو ناکے لگائے جاتے ہیں‘ اس سے عوام کو ذہنی اذیت ضرور ہوتی ہے مگر ان ناکوں پر آج تک کبھی کوئی ڈکیت نہیں پکڑا گیا جس سے بادی النظر میں یہی تاثر پختہ ہوتا ہے کہ یہ لٹیرے مبینہ خاص سرپرستی میں وارداتیں کرتے ہیں اسی لئے پکڑ میں نہیں آتے۔ ورنہ ہمارا سسٹم اتنا بھی بوسیدہ یا ناکارہ نہیں کہ معمولی چور کو نہ پکڑ سکے۔