9 مئی کے روز شر پسندی کرتے ہوئے جن افراد نے جلاؤ گھیراؤ اور فوجی تنصیبات کو نقصان کے واقعات میں حصہ لیا اب ان کے گرد گھیرا تنگ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ فوج میں ان واقعات کے حوالے سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کا اظہار سوموار کو جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں ہونے والی خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی کیا گیا۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس میں سیاسی شرپسندوں کی جانب سے کیے گئے جلاؤ گھیراؤ اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی۔ مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، عسکری قیادت نے فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے افراد کو ملک کے متعلقہ قوانین بشمول پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے ذریعے انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم ظاہر کیا۔
غیر معمولی حالات کے پیش نظر ہونے والی اس خصوصی کانفرنس میں گزشتہ دنوں کے دوران امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا جسے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ اس موقع پر ہونے والی بریفنگ کے دوران عسکری قیادت کو بتایا گیا کہ ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر افواج پاکستان ان حملوں کے منصوبہ سازوں، اکسانے والوں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے تمام مجرموں سے بخوبی واقف ہیں۔ فورم کو آگاہ کیا گیا کہ شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی، تاریخی عمارتوں کو نذرِ آتش کرنے اور فوجی تنصیبات کی توڑ پھوڑ پر مشتمل ایک مربوط منصوبے پر عمل درآمد کرایا گیا تاکہ ادارے کی بدنامی ہو سکے جبکہ یہ سارا عمل ایک ذاتی سیاسی ایجنڈا کے حصول کے لیے تھا۔ فورم نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ کسی بھی حلقے کی جانب سے قیام امن و امان کے لیے رکاوٹ ڈالنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا کہ کسی بھی ایجنڈا کے تحت فوجی تنصیبات اور مقامات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کوئی رعایت نہیں برتیں گے۔
فوجی قیادت میں پایا جانے والا غم و غصہ اس اعتبار سے بالکل جائز دکھائی دیتا ہے کہ پون صدی کے دوران جو کچھ ہمارا بدترین دشمن نہیں کر پایا سیاست کا نام کر وہ ملک کے اپنے ہی شہریوں سے کروا دیا گیا۔ اس معاملے کی اس حوالے سے بھی چھان بین ہونی چاہیے کہ اس سلسلے میں ملک دشمن عناصر نے کتنا کردار ادا کیا اور پی ٹی آئی کی قیادت کا لوگوں کو اکسانے اور بھڑکانے کا عمل محض عمران خان کی گرفتاری ہی کا ردعمل تھا یا پہلے سے کوئی ایسی منصوبہ بندی موجود تھی کہ کسی نہ کسی موقع پر ملک کی حفاظت کے لیے ذمہ دار اداروں کے خلاف ایسی کوئی کارروائی کرنی ہے۔ کئی ممالک پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے یہاں ایسے افراد اور گروہوں کی پشت پناہی کرتے رہتے ہیں جنھیں کسی بھی موقع پر ملک کے اپنے ہی اداروں کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں یہ ضروری ہے کہ تمام واقعات اور ان کے محرکات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر حکمت عملی اختیار کی جاسکے۔
دوسری جانب، چیئرمین پی ٹی آئی مذکورہ واقعات کی مذمت کرنے کی بجائے سکیورٹی اداروں پر مزید الزامات لگا کر معاملے کو اور زیادہ بگاڑ رہے ہیں۔ سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر اور اپنے ویڈیو پیغام کے ذریعے انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس کسی بھی آزادانہ انکوائری میں پیش کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جلاؤ گھیراؤ اور بعض مقامات پر فائرنگ وغیرہ میں ایجنسیوں کے اہلکار ملوث تھے۔ وہ چاہتے تھے افراتفری پھیلائی جائے جس کا الزام تحریک انصاف پر دھرا جائے اور اس کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کا جواز تراشا جا سکے۔ ویڈیو بیان میں عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے یہ منظم سازش نظر آئی ہے جس کے تحت سرکاری عمارتیں اور کورکمانڈر کا گھر جلایا گیا ہے، تخریب کاروں کو بندوقیں لے کر بیچ میں ڈالا گیا اور انھوں نے لوگوں کو اشتعال دلایا، میرے پاس ویڈیو ثبوت موجود ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اقتدار میں بیٹھے مافیا نے فائدہ اٹھایا، میری گرفتاری سے جو ردعمل آنا تھا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا نزلہ پی ٹی آئی پر گرایا ہے۔
عمران خان کے غیر سنجیدہ رویے اور بیانات کی وجہ سے پہلے بھی بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں لیکن وہ ان واقعات سے سبق سیکھنے کی بجائے معاملات کو مزید الجھاؤ کی طرف لے کر جارہے ہیں۔ اس معاملے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی باقی قیادت دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کر کے معاملات کو سلجھانے کے حق میں ہے لیکن عمران خان ہر بار ضد پر اڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ رویہ کسی بھی سیاسی رہنما کو ہرگز زیب نہیں دیتا اور بالآخر اس کا نقصان نہ صرف عمران خان بلکہ ان کی جماعت کو بھی اٹھانا پڑے گا۔ 9 مئی کو شر پسند عناصر کی طرف سے جو کچھ کیا گیا وہ اتنا غیر معمولی ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے کی ہی ضرورت ہے۔ عمران خان کے پاس اگر واقعی ثبوت اور شواہد موجود ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ انھیں سپریم کورٹ میں لے کر جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔
شر پسندوں کا آرمی اور آفیشل سکریٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل
May 17, 2023