میاں اسلم بشیر کی وفات کے بعد اسکی اور اپنی دوستی کے حوالے سے بند خزینوں میں جو موتی پڑے ہیں حسب وعدہ اِس کالم میں بھی اْن کا تذکرہ کرنا چاہتا تھا لیکن اِس ہفتے اِس ملک کے سیاسی اْفق پر جو تضادات اور حادثات رونما ہو رہے ہیں میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس دنیاوی زندگی میں جسطرح ان حالات پر آج میں ماتم کناںہوں ان پر میرے یار (انتہاؤں کی حدوں تک ملک سے پیار کرنے والا) کی روح بھی اْس عالم ارواح میں اْسی طرح اْن زخموں سے گھائل ہو رہی ہو گی جو اس ملک کے چند ناعاقبت اندیشوں کی ریشہ دوانیوں سے ہمارا مقدر بن چکے، لہذا میرا ضمیر مجھے مجبور کر رہا ہے کہ اپنی اور اسکی دوستی کی باقی یادوں کا تذکرہ پھر کسی اور روز کیلئے چھوڑ کر سردست اْن حالات پر لکھوں جہاں اگر تدبر کا مظاہرہ نہ ہوا تو پھر یقینا تباہی ہی ہمارے اس ملک کا مقدر ہو گی۔
قارئین 9 مئی کے واقعات کے ایک ایک لمحہ کے اْن شدت پسند رویوں جو ہمارے ملک کی سلامتی کیلیئے اڑدہا کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں کے بارے اگر یہ کہا جائے کہ وہ ہمیں کسی فکر کی دعوت دے رہے ہیں تو ایسے تحفظات کیلیئے لْغت میں یہ الفاظ شائد بہت ضعیف دکھائی دیں۔ ایک ایسا ملک جو دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت ہو اور جسکے ایٹمی اثاثہ جات دنیا جہاں کی نظروں میں کھٹکتے ہوں وہاں باہر سے اور کوئی طاقت نہیں بلکہ اسکے اپنے عوام کے اندر سے مٹھی بھر شرپسند اْٹھیں اور پلک جھپکتے اپنے اْن دفاعی اداروں جو ان ایٹمی اثاثہ جات کی حفاظت کر رہے ہوں انکی تنصیبات پر نہ صرف حملہ آور ہوں بلکہ اس ملک پر اپنی جانیں قربان کرنے والے شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کے بھی مرتکب ہوں تو اس پر کیا صرف مذمتی بیان جاری کرنا یا غور و فکر کرنا ہی کافی ہوگا یا پھر انکو عبرت کا نشان بنانے کا عملی مظاہرہ کرنا ہی شاید حیات کی طرف لوٹنا ہو گا۔ اب یہی وقت کی پکار ہے۔
ہم قحط الجالی کی کن منزلوں پر فائز ہو چکے ایک عام قاری اس نظام میں کینسر کی طرح پھیلی اخلاقی تنزلی، بدحالی اور بانجھ پن کا اس بات سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ جب انصاف مہیا کرنے والے ملک کے سب سے بڑے آئینی ادارے کے ایک سربراہ کو یہ دن دیکھنا پڑے کہ وہ ایک ایسی گرفتاری بقول شخصے جسکی وجہ سے یہ سارے فسادات برپا ہوئے اس مقدمے کی سماعت کے دوران ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کو حکم نہیں تجویز نہیں بلکہ ریکویسٹ کرے کہ وہ ایسے ہولناک اور دل ہلا دینے والے واقعات میں ملوث شرپسندوں کے خلاف ایک مذمتی بیان ہی جاری کر دے تو پھر اس نظام پر اِنّا للہہ و اِنّا الیہہ راجعون پڑھنا تو بنتا ہے۔ اہل دانش کہتے ہیں جب ایسے مقام آ جائیں جہاں انصاف دینے والے ہاتھ خود خیرات کیلیئے ہاتھ پھیلانا شروع کر دیں وہاں لازم ہو جاتا ہے کہ ایسے ہاتھ قلم کر دیے جائیں۔
بطور طالبعلم 9 مئی کے واقعات کا جب جائزہ لیتا ہوں تو میرے ذہن میں سب سے پہلا سوال یہ اْٹھتا ہے کہ اس روز جتنے بھی پْرتشدد واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں اْن سب میں کسی جگہ بھی سول املاک کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ لاہور لبرٹی چوک سے لیکر کور کمانڈر ہاؤس تک کتنے شاپنگ مالز، فوڈ پوانٹس اور بینک راستے میں آتے ہیں، ہنگامہ آرائیوں اور بلؤں میں ہمیشہ دیکھنے کو یہ ملتا ہے کہ ایسے مقامات کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نشانہ بنایا گیا صرف کور کمانڈر کے گھر کو، مزید براں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اسی کینٹ ایریا میں اور بھی فوجی اور عسکری دفاتر موجود تھے اْن سے کیوں صرف نظر برتا گیا۔ اسی طرح دیکھیں راولپنڈی میں جی ایچ کیو کا رْخ، پشاور میں قلعہ بالا حصار، میانوالی میں ائیر بیس، جب ان تمام واقعات کا گہرائی سے جائزہ لیا جاتا ہے تو پھر ایک خاص منصوبہ بندی اور مائینڈ سیٹ کے اشارے ملتے ہیں کہ مقصد چین آف کمانڈ میں دراڑیں ڈالنا تھیں۔ اس سے بھی ایک قدم اور آگے جائیں تو زمینی حقائق دو تین اور واقعات کی طرف لیڈ دیتے بھی نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلی بات کہ جب یہ واقعات جنم لیتے ہیں اس وقت ملک کا سپہ سالار ملک میں نہیں ہوتا، دوئم اس سے پہلے ملک کا وہی سپہ سالار چین کا دورہ کر کے آتا ہے جہاں پر چھپن ارب ڈالر کی لاگت کے ایک ایسے منصوبے پر دستخط ہوتے ہیں جو اگر مکمل ہو جاتا ہے تو اس سے پاکستان کی ہی نہیں پورے خطے کی تقدیر بدل جاتی ہے اور پھر اس سے بھی بڑھ کر ایک ایسی عالمی طاقت جو اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے اسکے سفارتکار ایک مخصوص سیاسی پارٹی کے اقابرین سے تواتر سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ جب بطور طالبعلم ان واقعات کی کڑیاں ملاتا ہوں تو پھر میر جعفر اور میر صادق کا کردار بھول جاتا ہوں اور میرا ذہن لارنس آف عریبیہ کی طرف چلا جاتا ہے۔ قارئین میں سے اکثریت شائد لارنس آف عریبیہ کے کردار سے اتنے آشنا نہ ہوں۔ اختصار کے ساتھ بتاتا چلوں لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس (16 اگست 1888ئ– 19 مئی 1935ء )، برطانوی افواج کا ایک معروف افسر تھا جسے پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں عرب علاقوں میں بغاوت کو منظم کرنے کے باعث عالمی شہرت ملی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں جنگ عظیم کے بعد عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کی دسترس سے نکل گئے۔ اسلامی خلافت کے خاتمے کیلئے عربوں میں قوم پرستی کے جذبات جگا کر انہیں ترکوں کے خلاف متحد کرنے کے باعث اسے لارنس آف عربیہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسکا یہ خطاب 1962ء میں لارنس آف عریبیہ کے نام سے جاری ہونے والی فلم کے باعث عالمی شہرت اختیار کر گیا۔ قارئین سب باتیں بتانا میرا کام ہی نہیں آپ اس فلم کو دیکھیں اور پھر اپنے ملک کے آج کے حالات کا جائزہ لیں اور شخصیت پرستی کے خول سے نکل کر ایک تقابلی جائزہ لیں۔ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں لیکن چلتے چلتے اتنا ضرور کہونگا
میرے جلتے گھر کو کیا معلوم
میرے گھر کے چراغ مجرم ہیں
لارنس آف عریبیہ
May 17, 2023