کیا پی ٹی آئی بند گلی میں ہے؟؟؟؟

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ان کے فیصلہ سازوں، حکمت عملی ترتیب دینے والوں اور منصوبہ بندی کرنے والوں کو ہمیشہ ان صفحات سے یہ پیغام دیا گیا کہ سیاست بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے اور بند راستے کھولنے کا نام ہے۔ سیاسی عمل لوگوں کا ملانے اور فاصلے کم کرنے کا نام ہے۔ سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں ہوتا اور ہر انسان غلطیاں کرتا ہے۔ انسانوں کے ساتھ انسانوں جیسا رویہ رکھتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھائیں اور ریاستی اداروں بالخصوص دفاعی اداروں کے حوالے سے محتاط رویہ اختیار کریں۔ بھلے آپ کے تعلقات بہت اچھے ہوں یا کہ تعلقات میں تنائو کی کیفیت ہو دفاعی اداروں بارے محتاط رویہ اپناتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ دفاعی اداروں کا دنیا بھر میں کام کرنے کا ایک مخصوص انداز ہوتا ہے اور کسی بھی جگہ حکومتی پالیسیوں میں ان کے اہم کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران اس معاملے میں سنجیدگی اور زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں معاملات بگڑتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حالت اس کی سب سے بڑی اور تازہ ترین مثال ہے۔ پی ٹی آئی حکومت میں آئی تو ایک صفحے پر رہنے کا شور ہوا ،ہوتا رہا، اس وقت کے آرمی چیف کو جمہوریت پسند اور قوم کا باپ کہا گیا لیکن پھر انہیں عوامی اجتماعات میں نامناسب انداز میں پکارا جاتا رہا اور پھر بات یہاں تک پہنچی کہ عمران خان نے سابق آرمی چیف پر یہ الزام بھی لگا دیا کہ انہوں نے امریکہ میں حسین حقانی کی خدمات ان کے خلاف لابنگ کے لیے حاصل کی تھیں۔ جب کہ نو مئی کے واقعات میں بھی عمران خان عدالت جانے سے پہلے ہی حساس اداروں پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔ وہ اپنی حکمت عملی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دفاعی اداروں کو اتنا دباؤ میں لایا جائے کہ ان کے پاس عمران خان کے ساتھ چلنے کے سوا کوئی راستہ نہ بچے لیکن کیا جھوٹ اور غلط بیانی سے قائم کیے گئے بیانیے پر آپ ملک و قوم کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یا ان اداروں کو جو دنیا بھر میں پاکستان کے دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں انہیں جھوٹے بیانیے سے دباؤ میں لا سکتے ہیں یہ سوچنے والی بات ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت ایک سیاسی اور آئینی انداز میں ختم ہوئی اس کے بعد سے آج تک وہ اس کا ذمہ دار دفاعی اداروں کو سمجھتے ہیں۔ اس دوران وہ وقتا فوقتا عوامی سطح پر اس کے ذمہ داران بدلتے رہے لیکن اصل میں ان کا نشانہ پاکستان کی فوج ہی رہی ہے۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس کا موجودہ آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے بیان بھی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ بہرحال حکومت ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے تباہی کا جو سفر شروع کیا وہ لاہور کے جناح ہائوس کو نذر آتش، کراچی میں رینجرز کی چوکی کو جلانے اور فیصل آباد میں حساس ادارے کے دفتر پر حملے کے بعد اب تک جاری ہے۔ سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے دروازے بند کرنا اور دفاعی اداروں کو غیر ضروری نشانہ بنانا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بعد اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کسی بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔ اس سے پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ صرف عمران خان بند گلی میں ہیں لیکن حماقتوں کے تسلسل کے بعد اب یہی بات ان کی جماعت بارے ہونے لگی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔ گذشتہ روز سائرن میں نو مئی کو جلائو گھیراؤ ، توڑ پھوڑ اور بد امنی پھیلانے والوں کے حوالے سے سخت سزاؤں پر بات ہوئی تھی اس حوالے سے یہ فیصلہ بھی ہوا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنیوالوں کا آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل ہو گا۔ آئی ایس پی اآ کے مطابق  آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس میں شرکاء  نے مادروطن کے دفاع میں شہید ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔  کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ فوج ان اکسانے والوں،حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں سے بخوبی واقف ہے،  ان گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد کو پاکستان کے متعلقہ قوانین کے تحت کٹہرے میں لایا جائے گا، مجرموں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے ذریعے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔فورم نے سیاسی مقاصد کے لیے پیدا کی گئی چند روز کی امن و امان کی صورتحال کا جامع جائزہ لیا اور بیرونی سپانسر شدہ اور اندرونی طور پر منظم پروپیگنڈا مہم پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ فورم کو شہداء  کی تصاویر اور یادگاروں کی بے حرمتی کے مربوط توڑ پھوڑ منصوبے پر بریفنگ دی گئی۔ فورم نے جاری سیاسی عدم استحکام سے نمٹنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان قومی اتفاق رائے اورعوامی اعتماد بحالی کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا۔ 
یوں اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ نو مئی کو جس بیدردی سے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا گیا ہے اس کے ذمہ داران کا بچنا مشکل ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ فیاض الحسن چوہان اور شہریار آفریدی بھی گرفتار ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں پی ٹی آئی واقعی بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔ خوشامدیوں اور ہر وقت یس سر کہنے والوں نے ایک مقبول جماعت کو جنونیوں کی جماعت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کاش کہ عمران خان اس حوالے سے بروقت کوئی فیصلہ کرتے لیکن وہ بھی آسمانوں پر ہیں خود کو کسی اور مخلوق سے سمجھتے ہیں دیگر سیاست دانوں کو اچھوت سمجھتے ہیں ایسے چل نہیں سکتا اپنے کارکنوں کی تربیت بھی ایسے ہی کی ہے نفرت کے بیانیے کی تربیت کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
عمران خان اور ان کے ساتھی دفاعی اداروں کے خلاف ہیں جبکہ پی ڈی ایم عدالتوں کے خلاف سڑکوں پر ہے۔ باہر سے کسی نے کیا کرنا ہے ہم خود اپنے اداروں کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ بھی آمنے سامنے ہیں۔ سپریم کورٹ کے باہر اعلی عدلیہ کے چند ججوں کے خلاف دھرنا دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف عمران خان نو مئی کے واقعات کا الزام ایجنسیوں پر لگا رہے ہیں۔ کیا یہ تباہی نہیں۔ کوئی اپنے سیاسی فائدے کو نہیں چھوڑنا چاہتا۔
ان سب تکلیف دہ خبروں میں اچھی خبر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل ہے۔ حکومت نے آئندہ پندرہ روز کیلئے  پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا ہے۔ ملک میں پیٹرول کی قیمت میں بارہ روپے فی لیٹر کمی کی گئی ہے جس کے بعد نئی قیمت دو سو ستر روپے فی لیٹر ہوگی۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت تیس روپے کمی کے بعد دو سو اٹھاون روپے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت میں بارہ روپے فی لیٹر کمی کی گئی ہے جس کے بعد نئی قیمت ایک سو چونسٹھ روپے سات پیسے فی لیٹر ہوگی۔ احتجاج اور مظاہروں کے درمیان یہ ایک اچھی خبر ہے۔ حکومت قانون توڑنے والوں کو پکڑے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے جن کو بھی قابو کرے اسے اتنی کھلی چھوٹ کیوں دے رکھی ہے۔ عام آدمی کی زندگی میں سہولت پیدا کرنے کے لیے اشیاء  خوردونوش کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہیے۔ سبزیاں، دالیں، آٹا، چاول، دودھ، دہی، ادویات سمیت زندگی گذارنے کی بنیادی اشیاء  پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں۔ ان چیزوں پر پیٹرولیم مصنوعات کہ بڑھتی ہوئی قیمتیں براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔ پیٹرول کو زیادہ سے زیادہ ایک سو پچاس روپے تک ہونا چاہیے۔ اسی طرح ڈالر کو بھی دو سو کم پر لانا ضروری ہے۔ اگر حکومت عام آدمی کی حمایت چاہتی ہے تو اسے مہنگائی کے جن کو بھی اڈیالہ جیل بھیجنا ہو گا۔
آخر میں احمد فراز کا کلام
میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا 
قرعہ فال مرے نام کا اکثر نکلا 
تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے 
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا 
میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا 
جب کوئی پھول مری شاخ ہنر پر نکلا 
شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر 
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا 
تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن 
مجھ سے تنہا کے مقابل ترا لشکر نکلا 
میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز 
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا

ای پیپر دی نیشن