اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کی دو دن کیلئے حفاظتی ضمانت منظور کر لی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو فواد چودھری کی گرفتاری مزید 2 مقدمات میں کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ فواد چودھری کو ایسے مقدمے میں بھی گرفتار نہ کیا جائے جس کا انہیں علم نہ ہو۔ اسلام آباد کی حد تک فواد چودھری کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو آج ذاتی حیثیت میں طلب کرکے مقدمات کا ریکارڈ منگوایا۔ سماعت جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کی۔ تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ ایڈووکیٹ فیصل چودھری نے کہا ہے فواد چودھری کو پنجاب کی حد تک بھی ریلیف ملا ہے۔ دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جو بعد میں سنا دیا گیا ہے۔ فواد چودھری رہائی کے بعد جیسے ہی گھر واپسی کے لئے گاڑی میں بیٹھے تو انہوں نے اپنے سامنے پولیس اہلکاروں کو دیکھا تو وہ گاڑی سے اتر کر بھاگ نکلے۔ فواد چودھری گاڑی سے نکل کر تیزی سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اندر بھاگے جس دوران وہ گر گئے اور پھر اٹھنے کے بعد وہ کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔ رہائی کے بعد فواد چودھری نے ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کو گنجائش دینی ہو گی۔ میں یہ سمجھتا ہوں ہر طرف سے تحمل کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔ کوئی حل نکالنا چاہئے۔ مذاکرات ہونے چاہئیں‘ یہ ملک پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کی پہلے بھی مذمت کی ہے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ ہم جیل میں تھے، گرفتار تھے، نہیں پتا باہر کیا ہوا۔ دوران گرفتاری کل فیملی سے رابطہ ہوا۔ کیس ہی مذاق ہے، یہاں سے نکلیں گے تو کسی اور مقدمے میں گرفتارکرلیں گے۔ 8 ہزار افراد اس وقت جیلوں میں ہیں۔تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کر دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے فواد چودھری نے کہا کہ 9 مئی کو جو واقعات پیش آئے اس پر ہر پاکستانی رنجیدہ ہے۔ نو مئی کے واقعات ان کی مذمت کرتا ہوں۔ جی ایچ کیو اور کور کمانڈر لاہور واقعات پر ہر پاکستانی رنجیدہ ہے۔ فوج ہے تو پاکستان ہے۔ 9 مئی واقعات کی انکوائری کی جائے اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ پی ٹی آئی رہنما گھنٹوں اسلام آباد ہائیکورٹ کے اندر بیٹھے رہے اور ضمانت کے تحریری آرڈر لیکر باہر آئے۔ فواد چودھری نے کہا کہ بطور ترجمان پی ٹی آئی سمجھتا ہوں کہ 9 مئی کے واقعات شرمناک ہیں۔ 9 مئی کے واقعات پر ہر وہ شخص جس کا تعلق پاکستان کی فوج سے ہے وہ اس پر رنجیدہ ہے۔ پاک فوج ہے تو پاکستان اور پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ پولیس نے گرفتار کرنا ہے تو کر لے۔ اگر گرفتار کیا جاتا ہے تو گرفتاری دینے کو تیار ہوں۔ 9 مئی کو یہ واقعات پیش نہیں آنے چاہئیں تھے۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ ان واقعات میں جو بھی ملوث ہو چاہے تعلق پی ٹی آئی سے ہو یا نہ ہو انکوائری کے بعد سزا ملنی چاہئے۔ اسی نکتہ نظر کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنی پالیسیاں بنانی چاہئیں۔