نیب قانون میں بہت سی چیزیں درست، کچھ غلطیاں ہیں، جن پر فیصلہ دینگے: سپریم کورٹ

May 17, 2023

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ اے پی پی) سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں عمران اور حکومت سے تحریری معروضات طلب کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے کی۔ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کراچی سے بذریعہ ویڈیو لنک عدالتی کارروائی میں شریک ہوئے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ہم سے بہت دور ہیں۔ اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ کل حالات ہی ایسے تھے کہ یقین نہیں تھا عدالت پہنچ سکوں گا۔ آج کل تو سوشل میڈیا بھی نہیں چل رہا کہ معلومات مل سکیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر تو "گڈ ٹو سی یو" بھی غلط انداز میں چلایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تحریری مواد دیکھنے کے بعد ضرورت ہوئی تو مزید سماعت کریں گے۔ اگر فراہم کردہ مواد پر عدالت کسی نتیجے پر پہنچی تو فریقین کو آگاہ کردیں گے۔ نیب ترامیم کیس کی آج 46 سماعتیں ہوچکی ہیں۔ اب تک خواجہ حارث 26 اور مخدوم علی خان نے 20 سماعتوں پر دلائل دیے۔ مقدمہ کو مزید نہیں لٹکانا چاہتے کیونکہ چھٹیوں میں شاید بنچ دستیاب نہ ہو۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے عمران کے نیب ترامیم سے مستفید ہونے کا نکتہ عدالت میں اٹھا دیا۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ آئینی تاریخ میں پہلی بار ایک شخص نے اس قانون سے فائدہ حاصل کیا جس کو چیلنج کر رکھا ہے۔ عمران خان چاہتے ہیں جس قانون سے فائدہ وہ حاصل کر چکے اس سے کوئی اور مستفید نہ ہو۔ تاریخ میں پہلی بار یہ بھی ہوا کہ ایک وزیراعظم نے عہدے سے فارغ ہونے پر اپنے ترمیم شدہ قانون کو چیلنج کیا۔ آئین اجازت نہیں دیتا کہ قانون سے ناقد شخص اسی سے فائدہ لے۔ درخواست گزار نہیں بتا سکے کہ نیب قانون براہ راست بنیادی انسانی حقوق سے منافی ہے۔ نیب ترامیم کے خلاف کیس قیاس آرائیوں پر مبنی لمبی مشق ہے۔ حکومت نے کل جوائنٹ سیشن میں نیب ترامیم منظور کیں۔ صدر نے نیب ترامیم بغیر دستخط کے واپس کیں اور انہیں پارلیمنٹ نے دوبارہ منظور کیا۔ عمران نے نیب قانون پہلے ٹرائل کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے یہ نکتہ پہلے بھی بہترین انداز میں اٹھایا تھا کہ درخواست ٹھوس بنیادوں پر مبنی نہیں۔ اس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت 184/3  کے مقدمات میں کسی بھی قانون پر جوڈیشل ریویو کرسکتی ہے، ساری دنیا میں عدالتیں قوانین کو کالعدم قرار دیتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ تیسری ترمیم سے متاثر ہیں تو متعلقہ فورم سے رجوع کر لیں۔ عدالتی فیصلے میں موجود ہے جس کے تحت عدالت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا کہتی رہی ہے۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کی ہدایات دینے کا مقصد قانون کو آسان بنانا تھا تاکہ بہتری ہو۔ اے پی پی کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے نیب قانون میں بہت سی چیزیں درست ہیں، کچھ غلطیاں ہیں جن پر فیصلہ دیں گے۔ خواجہ حارث صاحب، نیب ترامیم دیکھ کر بتائیں ان میں غلطی کیا ہے؟۔ یہ بھی بتائیں کہ نیب ترامیم میں کن بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔ خود سے یہ طے نہیں کر سکتے کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بنیادی حقوق متاثر ہو گئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اپنے جواب میں مخدوم علی خان کے اعتراضات کا جواب بھی شامل کیجیے گا۔ خواجہ حارث نے کہا حکومت نے نیب قانون میں کل تیسری ترمیم کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت بھی تو ہمارا امتحان لیتی جا رہی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت نے نیب قانون میں ریفرنسز واپس ہو کر متعلقہ فورم سے رجوع کرنے پر ترمیم کی ہے۔

مزیدخبریں