آواز خلق
فاطمہ ردا غوری
”نعت “فن شعری کے زیور کا نگینہ ہے کسی کلام میں ایسے گھلاوت آنے لگے جو وحدت اور رسالت کی کڑیوں کو ملاتی چلی جائے تو یہ یقینا خدا کی خاص عنایت ہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ نعت کبھی بھی کہی نہیں جاتی بلکہ اللہ کے مخصوص بندوں پر اتاری جاتی ہے وہ ذات گرامی جس کی مدح خود رب العالمین نے کی ہو اس کا حق بلا شبہ وہی ادا کر سکتا ہے جو محبت رسولﷺ سے سرشار ہو اور جسے اللہ پاک خود توفیق دے کہ
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
ہمارے ہاں نعتیہ شاعری کی بلند مثال علامہ اقبال کی صورت موجود ہے اقبال کو رسول ﷺ سے جو عشق تھا اس کا اظہار اردو فارسی شاعری کے ہر دور میں ہوتا رہا ہے انہوں نے نعتیہ شاعری میں غیر معمولی والہانہ پن اور خلوص فکر کواجاگر کیا باطن جس طرح عشق رسول ﷺ کا سرچشمہ تھا اس کے پیش نظر اس نوع کی نعتیہ شاعری کا وجود میں آنا ایک فطری عمل تھا مولانا عبدالمجید سالک ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
” اقبال کے گذاز قلب اور رقت احساس کا یہ عالم تھا کہ جہاں سرورکونین ﷺ کی رفاقت و رحمت کا ذکر آتا اقبال کی آنکھیں اشکبار ہو جایا کرتیں اور طبیعت دیر تک سنبھل نہ پاتی “
اسرار خودی میں اقبال نے کیا خوب کہا تھا
دردلِ مسلم مقام ِمصطفی ﷺاست
آبروئے ما زنامِ مصطفی ﷺاست
مولانا عبدالسلام ندوی” اقبال کامل “میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر علامہ اقبال نے نعتیہ شاعری کو بالکل قومی شاعری بنا دیا تھا “
علامہ اقبال روز محشر کے حوالے سے بھی اللہ پاک کے حضورکس خوبصورت طریقے سے دعا گو ہیں ملاحضہ فرمائیے
تو غنی از ہر دوعالم من فقیر
ر وزمحشر عذر ہائے من پذیر
گر حسابم را توبینی ناگزیر
از نگاہ مصطفی ﷺ پنہاں بگیر
فارسی کے ایک اور بلند پایہ شاعر سعدی شیرازی نے بھی نعت گوئی میں کمال مہارت کا مظاہرہ کر رکھا ہے ان کا ایک شہرہ آفاق شعر ہے
چہ وصفت کند سعدی اے ناتواں
علیک الصلوة اے نبی السلام
ایک اور بلند پایہ اورر عشق محمد ﷺ سے سرشار شاعر جن کو زبان فارسی پر عبور کی وجہ سے” سعدی ثانی“ کہا جاتا تھا اور ان کے شاگرد آسام اور بخارا تک پھیلے ہوئے تھے حضرت غلام محمد ایک جگہ کیا خوب فرماتے ہیں
من گرچہ کم تر از ہمہ اولاد آدمم
فخرم ہمیںبس است غلام محمدم
نعت گوئی کے فن ، نعت گوئی کے میدان کے بڑے نام اور نعت گوئی کی تاریخ کے حوالے سے آج یہ یادیں اس لئے تازہ ہو گئیں کہ گزشتہ دنوں دائرہ علم و ادب پاکستان کے زیر اہتمام جناب محترم محمد ضیغم مغیرہ کے نعتیہ مجموعہ " شفاعت " کی تقریب رونمائی میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی مغیرہ صاحب خوش قسمت ہیں جو اللہ تعالی نے انہیں اس خاص مقصد کے لئے چنا اور بہت خوب چنا! یہ بات دل کو مزید فرحت و شادمانی میں مبتلا کر گئی کہ مغیرہ صاحب پر ان تمام مبارک نعتیہ کلام کی آمد خانہ کعبہ کی پاک سرزمین پر ہوئی خدا کے گھر میں بیٹھ کر خدا کے محبوب ﷺ کی ثناءکا موقع ملا گویا” سونے پر سہاگہ“ والا معاملہ ٹھہرا مغیرہ صاحب قسمت کے دھنی ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ جو جو کام منسلک ہوئے وہ قابل صد افتخار ہیں تعلیمی میدان میں بھی ان کا نام ایک خاص حیثیت رکھتا ہے کہ انہوں نے کئی پسماندہ علاقوں میں ایسے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا ہے جو ایک عرصہ سے تعلیم سے محروم تھے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کے ادارے میں پڑھنے والے طلبہ کئی میدانوں میں نمایاں حیثیت سے کامیاب ہو کر ان کے تعلیمی ادارے کے لئے تمغہ ثابت ہو چکے ہیں ماہر تعلیم اور ایک بہترین شاعرمحمد ضیغم مغیرہ کی کتاب کا خوبصورت عنوان " شفاعت" دل کو ایک عجیب سی تسکین پہنچاتا ہے اور اس کتاب کی شان میں منعقد ہونے والی تقریب بھی اپنے اندر ایک عجیب سا سکون و اطمینان سمیٹے ہوئے تھی یہ دیکھ کر خوشی دوبالا ہو گئی کہ تقریب کی صدارت اردو اور عربی کے ممتاز عالم، مایہ ناز شاعر اور سرمایہ ¿پاکستان ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے کی جن کی شاعری کے کئی سحر انگیز مجموعوں کے ساتھ ساتھ نعتیہ مجموعہ " نسبتیں" آج تک پڑھنے والوں کے دلوں کو جگڑے ہوئے ہے!!!
پھر رہ ِنعت میں قدم رکھا
پھر دم ِتیغ پر قلم رکھا
لفظ عاجز ہوئے تو آخر کار
چشم ِتر نے میرا بھرم رکھا
کوششِ نعت نے مجھے خورشید
خود سے شرمندہ دَم بدَم رکھا
تقریب میں تعلیم کے نوجوان سپاہی ،صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے بطور مہمان خاص شرکت کی انہوں نے " شفاعت " کے حوالے سے دل گداز گفتگو کے ساتھ ساتھ غیر ممالک میں اسلام کی تبلیغ کے اپنے آزمودہ طریقہ کار کے حوالے سے انتہائی سحر انگیز، خوبصورت گفتگو کی کہ سننے والوں کا دل موہ لیا اطمینان ہوا کہ آخر ِکار اب کی بار خوش قسمتی سے ہمیں ایک اہل اور اعلٰی تعلیم یافتہ وزیر تعلیم نصیب ہوا ہے
تقریب سے خطاب کرنے والوں میں نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ , والد صاحب اور چچا نجم الحسن عارف کے دیرینہ دوست سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم صاحب ،سینئر ادیب اور سیاستدان فرید پراچہ صاحب ،نامور دانشور نجیب جمال ،مایہ ناز کالم نگار اوریا مقبول جان ،نامور نقاد اور شاعر اورنگزیب نیازی ، ہر دل عزیز شاعر عباس تابش اور نامور گلور عدیل برکی نے شرکت کی اس کے علاوہ کئی اہم ادبی، سیاسی، مذہبی، صحافتی اور سماجی شخصیات نے اس پروقار تقریب کو رونق بخشی
محترم مغیرہ صاحب کی کتاب کے حوالے سے سحر انگیز اظہار خیالات نے ایک خوبصورت سماں باندھے رکھا اور ان کے اس کارنامے " شفاعت" کو بارہا سراہا گیا یہاں قلم کاروں کا ہاتھ تھامنے والے پلیٹ فارم ”دائرہ علم و ادب“ کے لاہور میں آغاز پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے دعا گو ہیں کہ اللہ پاک چیئرمین ڈاکٹر محمدافتخار کھوکھر، مربی احمدحاطب صدیقی صاحب ،محمد ضیغم مغیر ہ صاحب، مرکزی رابطہ کار ڈاکٹر احسن حامد ودائرہ علم و ادب لاہور کے صدر اظہر عباس،سینیئر خاتون رکن حفصہ خالد سمیت دیگر کے فلاحی کاموں میں مزید برکت عطا فرمائے اور ان کے قلم کو مزید طاقت سے نوازے اور روز محشر یہ کتاب ضیغم مغیرہ صاحب کی ” شفاعت “ کا باعث بنے آمین ثم آمین ۔
آخرمیں " شفاعت" کا ایک نہایت خوبصورت شعر درج کر کے اجازت چاہوں گی کہ یہ شعر موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں پھیلتے انتشار بے راہ روی اور عدم برداشت کے رویوں کی بھی عکاسی کرتا ہے
بے بسی، بے کسی، بے حسی، خودکشی
تیرا نقش قدم چھوڑنے کی سزا