بلا امتیاز.... امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
11 مئی ....یہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی شٹرڈاون اور پہیہ جام ہڑتال کا پہلا روز تھا کسے معلوم تھا کہ اگلے دو روز میں سماجی انقلاب کا سورج پوری آب وتاب کے ساتھ طلوع ہو جائے گا ۔12 اور 13 مئی کو وزیراعظم انوارالحق کی دو مسلسل ہنگامی پریس کانفرنسیں سبق دے رہی تھیں کہ اختیار اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہی ہوتے ہیں ۔40لاکھ افراد کی حامل ریاست اور اس کے باشندوں نے انصاف‘ اتحاد‘ یکجہتی اپنی کاز اور نصب العین سے وابستگی کا ایسا غیر متزلزل ثبوت دیا کہ اہل دانش انگشت بدنداں رہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے عوامی ردعمل کے آگے انتظامیہ کے اقدامات ریت کی دیوار ثابت ہوئے ۔ مہنگی بجلی‘ مہنگا آٹا اور اشرافیہ کی مراعات نے کشمیری باشندوں کے دل ودماغ میں جو لاوا جلایا وہ بالآخر 11 مئی 2024 کو پھٹ پڑا۔ ہڑتال کے اگلے روز رات گئے ہونے والی پریس کانفرنس میں وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے دو بڑے مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ 13 مئی کو وزیراعظم میاں شہبازشریف نے 23 ارب روپے جاری کر دئیے جس کے بعد وزراءکی ظفر فوج کے ساتھ غیر معمولی پریس کانفرنس میں وزیراعظم آزاد کشمیر نے سستی بجلی اور سستے آٹا کے نوٹیفکیشن دکھا کر مشتعل کشمیریوں کو خوشخبری سنادی۔ سرکاری اعلان کے مطابق اب آزاد کشمیر میں پہلے 100 یونٹ پر بجلی کی قیمت 3 روپے جبکہ بعد کے یونٹس کے نرخ 5 روپے ہوں گے ۔آٹا فی من 1000 روپے سستا کیا گیا۔ 14 مئی کومظفر آباد میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے مظفر آباد یونیورسٹی گراونڈ میں دو شہداء فیضان اور اظہر الدین کی 30 ہزار افراد نے نماز جنازہ ادا کی جس کے بعد احتجاجی جلسہ ہوا قائدین نے حکومتی نوٹیفکیشن پڑھ کر سنایا اور یوں 10 ماہ کی اس عوامی تحریک کو منزل مل گئی جس نے لوگوں کو پریشانی کے اندھے کنوئیں میں گرا ہوا تھا ۔آپ کو یاد ہوگا آزاد کشمیر میں جب بھاری بلوں نے کشمیریوں کو پریشان کیا تھا توآزاد کشمیر اور پاکستان میں چوہدری انوارالحق اور انوار کاکڑ کے زیر صدارت ہنگامی اجلاس ہوتے رہے مگر نتیجہ ہر بار وہی ڈھاک کے تین پاٹ کی صورت میں نکلتا رہا ۔ یاد رکھیں جب عوام سے نمائندے اور حکمران دور اوربے نیاز ہو جائیں تو پھر فیصلے سڑکوں پر ہوتے ہیں!!
آزاد کشمیر میں احتجاج کے دوران تین روز تک تعلیمی اور تدریسی زندگی کا معطل ہونا قابل افسوس ہے ۔کوشش کی جائے کہ آئندہ ایسے حالات دوبارہ پیدا نہ ہونے دیں، اس ساری صورت حال کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ ریاستی وزراءدس ماہ تک عوامی موڈ کا اندازہ نہ لگا سکے ۔ اس عرصے میں وہ مسلسل لوگوں سے غیر ضروری فاصلے میں رہے جس سے لاوا مسلسل پکتا رہا۔ آزاد کشمیر کے لوگوں نے یہ سبق بھی دیا کہ جب عوامی قوت کی نیک مقصد کے لیے اکٹھا ہو جائے تو پھر منزل زیادہ دور نہیں رہتی۔
ہم دانش مندانہ اقدامات پر وزیراعظم میاں شہبازشریف کوبھی داد دیتے ہیں جنہوں نے صورت حال کو مزید بگڑنے سے روکا، صدر آصف علی زرداری کا مصالحانہ کردار بھی قابل تعریف ہے ۔اہل آزد کشمیر نے سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کے بغیر کامیاب تحریک چلا کے ثابت کرز دیا کہ جذبے صادق ہوں تو منزل دور نہیں ہوتی
نہیں اقبال نوامید اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
یہ درست ہے کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا بہت بڑا حصہ آزاد کشمیر کی سر زمین پر بننے والے ڈیموں اور پاور سٹیشنوں سے منسلک ھے۔ آئین پاکستان بجلی و گیس کی پیداوار کے سلسلے صوبوں اور ان علاقوں کو اس امر کی ضمانت دیتا ھے کہ ان علاقوں کو اس پیداواری عمل کے منافع و استعمال میں ترجیحی حاصل ھوگی، اسی طرح آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کی طرف سے گندم اور آٹے میں سبسڈی دینے کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ جب کبھی پاکستان میں گندم کی پیداوار میں کمی کے باعث قیمتوں میں اضافہ ھوتا اور اسکا اطلاق آزاد کشمیر یا گلگت و بلتستان پر ھو تو ھلکے پھلکے مظاھروں سے قیمتوں میں اضافے کا عمل رک جاتا رھا ھے اس پریکٹس کی وجہ سے جب بھی گندم یا آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ھو اسطرح کی تحریکیں مظاھروں سے رک جاتی رھی ھیں بالخصوص گلگت بلتستان جہاں آٹا اور گندم بہت سستے ریٹس پر دستیاب ھے۔ آزاد کشمیر کی آبادی 45 لاکھ کے لگ بھگ ھے جن میں سے نصف کے قریب بیرون ملک یا پاکستان میں مقیم ھو اور یہاں ھر چار پانچ سال بعد ممبران پارلیمنٹ اور ھر سال میں ایک ایک وزیراعظم تبدیل ھو رھا ھو اور انکو سابق وزیراعظم کی مراعات اور پوری پارلیمنٹ فلیگ ھولڈر بنتی نظر آئے،یہ پس منظر بیان کرنے کا مطلوب و مقصد یہ ھے کہ یہ تحریک صرف آٹے اور بجلی کے مطالبات تک محدود نہیں تھی بلکہ اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مطالبات میں اضافہ ھوتا گیا۔ کامیاب جدوجہد میں شامل سب شرکائ خواہ انکا تعلق کسی بھی مکتب فکر،کسی بھی سیاسی وغیر سیاسی پلیٹ فارم سے ھے مبارکباد کے مستحق ھیں۔ ہم میں اس موقع پر تحریک کے نتیجے میں وہ شہری جوتحریک کی نذر ھوئے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔حکومت کی طرف سے انکو کچھ معاونت بھی مل جائے گی جو یقیناً اس کا کسی بھی صورت میں نعم البدل اور تلافی نہیں ھوگی۔ ایسی تحریکیں جو بالعموم لیڈر لیس ھوتی ھیں ان میں شر پسندوں کو اپنے مقاصد کی تکمیل آسان ھوتی ھے ....مطالبات و مسائل کے حل کے حوالے سے یقیناً عوام کو ایک ریلیف ملے گا لیکن اس تحریک کا ایک منفی پہلو یہ ھے کہ بھارت نے اسکو میڈیا میں بہت ایکسپلائٹ کیا ھے۔ اس میں دانستہ اور نادانستہ غفلت مجرمانہ کا ارتکاب تحقیق طلب ھے اور ذمہ داران کو اسکی تحقیق اور تفتیش کے بعد جزا و سزا کے عمل سے گزارنا چائیے لیکن ھمارے ھاں اسکی کوئی روایت نہیں ھے !!