کرامت علی
1947 میں اپنی تخلیق سے اب تک مملکت خدادا د معاشی، اقتصادی ، مالی و انتظامی مسائل کیساتھ ساتھ بہت سے دیگر سماجی اور سیاسی مسائل کا شکار رہی ہے ۔ موجودہ حالات میں جب پاکستان پہلے ہی بیرونی قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تلے دب چکا ہے اورہماری قومی قیادت اور اقتصادی ماہرین کے پاس ان قرضوں سے نجات دلانے کے لئے کوئی بھی قابل عمل منصوبہ نہیں ہے تو پھر کسی بہتری کی اُمید کرنا عبث ہے اور ملک کو اقتصادی گرداب کی طرف جاتے ہوئے دیکھنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہیںآرہا ہے۔
حالیہ مردم شماری کے جاری کردہ سرکاری اعداو شمار کیمطابق پاکستان کی کل آبادی ساڑھے چوبیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ممالک کی فہرست میںپاکستان پانچویں نمبر پر آچکا ہے ۔ اس کی مثال یو ں لیجئے کہ موجودہ تناظر میںکوئی ایک خاندان جوپہلے ہی قرضے کے بوجھ تلے ہے جس کی ضروریات اور اخراجات دونوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صرف قرض کا سہارا لیا جا رہاہے جبکہ اس سے مستقل نجات حاصل کرنے کے لئے کوئی خاظر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جار ہے ہیں ۔اب نوبت یہاںتک پہنچ چکی ہے کہ ملک کے قومی ادارے جو ملکی پہلے ترقی میں اہم کرادر ادا کررہے تھے وہ بھی اُلٹا خسارے کا باعث بننے کی وجہ سے بوجھ بن گئے ہیں ۔
ان حالات میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے ۔آبادی میں اضافے کیوجہ سے ملک میں بے شمار مسائل جنم لے رہے ہیں جن میں سب سے پہلے تو ماں اور بچے کی صحت کو درپیش مسائل سرفہرست ہیں ۔ پاکستان میںآبادی میں اضافے کی وجہ سے ملک کو معاشی، اقتصادی، موحولیاتی آلودگی، مہنگائی ، بے روزگاری ، تعلیم وصحت ، اورزراعت کے مسائل نمایاں ہیں ۔ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا ساٹھ فیصد(60%) افراد کی عمریں تقربیاََ تیس سال تک ہیں ۔اسطرح کل آبادی کا اکسٹھ فیصد کا تعلق دہی علاقوں جبکہ انتالیس فیصد شہروں میں رہتے ہیں ۔ دیہی علاقوں میں سہولیات اوروسائل میں کمی کی وجہ سے لوگوں دہی علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں جسکی بدولت بڑے شہرے میلوں تک پھیل رہے ہیں جس کی وجہ سے شہروں میں رہنے والے بھی مختلف مسائل کا سامنا کر رہے ہیں ۔اگر ہم آبادی میں اضافے کی وجوہات پر روشنی ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ شرح خواندگی ( تعلیم )سب سے اہم مسلہ ہے ۔ اس وقت پاکستان میں تقریباََ26ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں جن کی عمریں پانچ سال سے سولہ سال کے درمیان ہیں ۔ اسی صورتحال میںملکی وسائل پہلے ہی کم ہیں جبکہ آبادی میں مسلسل اضافہ مسائل میں مزید اضافے کا سبب بن رہاہے ۔ دوسری بڑی وجہ خواتین کی کو خودمختاری اور انہیںافزائش نسل ومانع حمل کے بارے میں مکمل آگاہی کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔بچوں کی پیدائش میں وقفے کے متعلق مکمل معلومات و افادیت اور لاپرواہی کیصورت میںخواتین اور بچے کی صحت کے متعلق ممکنہ خطرات کے نتائج کے بارے میں آسان رسائی فراہم کرنے سے آبادی میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے ۔قران مجیدکی سورت البقرہ آیات نمبر ایک سو بتیس میں ارشاد ہوتا ہے کہ "مائیں اپنی اولاد کو کامل دو سال تک دودھ پلائیں" اگر مائیں بچے کو دو سال تک دوددھ پلائیں تو قدرتی طریقے سے کم از کم تین سال تک بچوں کی پیدائش میں وقفہ کیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح اگرترقی یافتہ ممالک کیطرح پاکستان میں حکومتی سطح پر قانون سازی کی جائے یا پالیسی مرتب کی جائے جس میں بچوں کی کم از کم تعداد مقرر کر دی جائے اور اس مقررہ کردہ تعداد پر عمل کرنے والے والدین کوریاست اگر کوئی انعامی رقم مختص کر دے یا انکی صحت اور تعلیم کے اخراجا ت خود اُٹھا لے تو بھی اس پر عمل پیرا ہو کر آبادی میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔ کم عمر ی میں شادیوں کے روجھان کے لئے قانون سازی کی جائے اور کم از اٹھارہ سال تک یا پچیس سال تک شادی کو لازمی قرار دیا جائے ۔ ان قوانین پرعمل نہ کرنے کیصورت میں جزاوسزادی جائے تاکہ عملی طور مقاصد کے حصول میںکمی واقع ہو سکتی ہے ۔
اسی طرح مذہبی غلط فہمیاں بھی اہم مسلہ ہے جس میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے مذہبی تعلیمات کی غلط تشریحات مانع حمل اقدامات کو اپنانے میں ہچکچاہٹ کا باعث بنتی ہیں۔ معاشرے میں زمانہ جہالیت کی طرز پر توہمات پررائج ہیں جیسا کہ کسی کے ہاں اگر پہلی بیٹی کی پیدائش مبنی اپنایاں جا رہا ہے جس میں کسی کے ہاں بیٹیاں پیدا ہوں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ تو پرایان دھن ہے بیٹے تو وراث ہوتے ہیں تو ایک دو یا تین بچیاں پیدا ہوں تو بیٹے کی جستجومیں بچے پیدا کرتے رہتے ہیں ۔اسی طرح ایک سوچ معاشرے میں یہ بھی پائی جاتی ہے کہ زیادہ بچے زیادہ کمائی کریں گے تو گھر میں خوشحالی آئے گی جس کی وجہ سے دیہاتوں میں بالخصوص یہ سوچ مسلسل آبادی میں اضافے کا سبب ہے ۔ علمائے اکرام ان توہمات و رسومات رکھنے والی سوچ کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ تعلیمی نصاب میں افزائش نسل کے متعلق ضروری معلومات کوتعلیمی نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ ان معلومات کے متعلق قبل از وقت آگاہی فراہم کی جائے ۔ حکومت وقت اپنے متعلقہ سرکاری وپرائیویٹ اداروںوفلاحی تنظیموں کیساتھ مل کر نوجوانوں کو آن لائن فری کورسز کروائیں جائیں اور اس کی آسان رسائی ہر سطح پر دی جائے تاکہ آگاہی کو عامل کیا جا سکے ۔ ملکی سطح پر آبادی کی روک تھاک کے لئے ایمرجنسی نافذ کی جائے اور میڈیا پر مثبت روجھانات کو پھیلایا جائے اورنئے بننے والے ڈارموں میں محبت و عشق کے موضوع پر ڈرامے چلانے کی بجائے اسلامی تاریخ کے روشن باب ، اسلامی روایات کی ترویج اورمعاشرتی مسائل اور ان کے متعلق آگاہی پر مبنی نشریات کی جائیں تو کسی حد تک نوجوان نسل کو ایک قوم بنانے کیساتھ ساتھ ذمہ دار شہری بنایا جا سکتا ہے ۔
موجودہ تناظر میں ریڈیو، ٹیلی ویژن ، سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر جامع حکمت عملی کے ذریعے آبادی پرقابو پانے کے لئے آگاہی مہم چلائی جائیں تاکہ موثر ابلاغ کے ذریعے عوام میںشعور بیدار کیا جا سکے ۔وقت آن پہنچا ہے کہ ہمیں بحثیت قوم اور ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے اس قومی مسلے کے حل کے لئے اپنا انفرادی کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ حکومت اور عوام دونوں ملکر آبادی میں اضافے پر موثر طریقے قابو پا سکتے ہیں تاکہ اجتماعی کوششوں سے ہی ملک پاکستان کو موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے بہتر معیار زندگی فراہم کیا جا سکے ۔