طارق محمود مرزا۔ آسٹریلیا
علامہ اقبال ؒ ۵۰۹۱ سے ۸۰۹۱ءتک یورپ میں زیرِ تعلیم رہے۔ اس دوران میں انھوں نے یورپ کے فلسفیوں، شاعروں اور ادیبوں کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کیا بلکہ بحیثیت مجموعی ان کی سوچ اور فکر کو بخوبی جان لیا۔ اس کا اظہار ان کے کلام میں جابجا موجود ہے۔
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
اقبال میں مغرب زدگی نہ پہلے تھی نہ قیامِ یورپ کے دوران آئی ۔ مغربی تہذیب سے مرعوبیت یا اندھی تقلیدکا تو سوال ہی نہیں پید اہوا کیونکہ وہ طالب علم اور محقق تھے۔ یورپ کا ظاہری تماشا ضرور دیکھا مگر محققانہ نظر سے ۔ اُنھیں ان میں خوبیاں بھی دکھائی دیں اور ان کی رُوح کے خالی پن کا بھی ادراک ہوا ۔
یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ ِ حیواں ہے یہ ظلمات
یورپ میں رہ کر اقبال کے ذہن و دل میں جو انقلابی تبدیلی آئی بلکہ ان کی کایا پلٹی، وہ ان کا وطن پرستی سے انحراف تھا ۔ ا سکی وجہ بھی یورپ بنا کیونکہ وہاں وطن پرستی کی جو لہر چلی تھی اس کی وجہ سے مختلف اقوامِ یورپ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے تھے۔وطن پرستی اور اس کے نتیجے میں پنپنے والی باہمی دشمنیاں انھی کو خاک و خون میں نہلانے والی تھی۔ اقبال نے اس کی پیشن گوئی کردی تھی اور جو چند سال بعد پہلی عالمگیر جنگ کی صورت میں سچ ثابت ہوئی۔اقبال کا شعر ہے:
ہوتی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد
فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر
اقبال دیارِ غیر میں رہتے ہوئے ہر وقت مسلمان اور ملت اسلامیہ کی فکر میں گم رہتے۔ ان کے اس دَور کے کلام سے صاف مترشح ہے کہ اقبال کی راہیں متعین ہو چکی ہیں۔ بلکہ اپنی قوم کی منزل اور ان کے نصب العین کا بھی تعین کر چکے ہیں۔اب اس پر خطر راہ پر خود بھی چلنا تھا اور قوم و ملت کی بھی راہنمائی کرنی تھی۔اقبال نے یورپ میں بیٹھ کر بین الاقوامی مسائل خصوصاً اسلامی دنیا کے حالات کا بھرپور جائزہ لیا۔ملت ِاسلامیہ کا شاندار ماضی، ناگفتہ بہ حال اور مخدوش مستقبل نے ان کے ذہن و دل میں بے چینی پیدا کر دی۔ ان کی دُوربین نگاہوں نے مسلمانوں کی خواب غفلت دیکھ لی تھی اس پر ان کی قلب و رُوح بے چین ہو گئی۔ اس کا اظہار ان کی شاعری میں بھرپور انداز میں ہوتا ہے۔:
دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
یورپ میں اقبالؒ کی جو ماہیت قلبی ہوئی اس سے ان کی شاعری میں مزید نکھار آگیا۔ انھیں باہر جا کر احساس ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی بقا اور نجات وطنیت میں نہیں بلکہ اسلام کی ڈور کو مضبوطی سے تھامنے میں ہے۔ انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ مغرب جو قوم پرستی میں سب سے آگے ہے وہاں قومیت کے نام، پر استحصال اور ملک گیری کی جیسے دوڑ لگی ہے۔ انگلستان، فرانس، پرتگال اور ہالینڈ جیسے ملکوں نے اسلحے اور سازشوں کے بل بوتے پر آدھی سے زائد دنیا کو غلامی کے پنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ وہ ان غلام اقوام کا آخری قطرہ خون بھی چوسنے پر لگے تھے۔ اس معاملے میں ان ممالک کے درمیان جیسے مقابلہ ہو رہا تھا۔ خود اقبالؒ کا دیس ہندوستان بھی انگریزوں کے قبضہ استبداد میں لہو لہان تھا۔ انگریز اس سونے کی چڑیا کا آخری پر تک نوچ لینا چاہتے تھے۔ جبکہ ہندوستانیوں کی اکثریت جنگل کے دَور کی زندگی جی رہی تھی۔ نہ تعلیم کی سہولتیں، نہ علاج معالجے کا بندوبست، نہ رسل و رسائل کا انتظام۔ حتیٰ کہ عوام کی اکثریت کودو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں تھی۔سب سے بڑھ کر یہ کہ غلامی کی مشکیں اس طرح کس لی گئی تھیں کہ قدم قدم پر ہندوستانیوں کو اس غلامی کا احساس دلایا جاتا تھا۔ ہندوستانیوں کو ایک عام انگریز کے سامنے سرنگوں بیٹھنا پڑتا تھا۔اقبال اسی ہندوستان سے جب انگریزوں کے اپنے ملک جاتے ہیں تو انھیں احساس ہوتا ہے کہ ہندوستانیوں کے ساتھ کتنا ناروا سلوک ہو رہا ہے۔ انھوں نے اپنے عوام کے لیے الگ قوانین بنا رکھے ہیں اور غلام اقوام کے لیے الگ قوانین بنا رکھے ہیں جو سراسر ظلم و انصافی پر مبنی ہیں۔ اقبال جیسا حساس شاعر، مفکر اور فلسفی یہ حالات دیکھتا ہے تو اس کے اندر ایک انقلاب پیدا ہوتا ہے۔ ایسا انقلاب جو اسے اس ظالمانہ نظام سے، اس منافقانہ تہذیب و تمدن سے اور جور و جفا پر مبنی نظام سیاست سے انتہائی برگشتہ کر دیتا ہے۔ انھوں نے یورپی اقوام کی قوم پرستی کے نتائج دیکھے تو سوچا اگر یہی قومیت کا انجام ہے تو اس سے توبہ ہی بھلی۔آغاز میں اقبال نے وطن پرستی کے کیسے کیسے گیت گائے تھے ۔سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔ خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے ۔ ہندی ہیں ہم وطن ہندوستاں ہمارا۔رُلاتا ہے تیرا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو۔
یورپ کی فضاو¾ں میں پنپنے والی اس ذہنی اور قلبی ماہیت کے بعد اقبال وطن کے اس طرح بت بنا کر پوجنے کو اسلام کی عالمگیر روح کے منافی خیال کرنے لگے۔ان کا فکری انقلاب دیکھیے کہ جس خاکِ وطن کو دیوتا کہتے تھے اب اسے مذہب کا کفن قرار دیتے ہیں ۔
ان تازہ خداﺅں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کاکفن ہے
بازو تر اتوحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
اس کے بعد اقبال تا دمِ ِمرگ امّتِ محمدی کی ترجمانی کرتے رہے ۔کیونکہ وہ بخوبی جان گئے تھے کہ نیل کے ساحل سے لے کر بخارا تک اُمّت مسلمہ کی بقا اخوت و اتحاد میں مضمر ہے۔ اسے قومیتوں میں تقسیم کرنا وحدتِ دینی کو پارہ پارہ کرنا ہے ۔اس تقسیم در تقسیم سے وہ نحیف ہو کر غیروں کے دستِ نگر بنے رہیں گے ۔کاش اقبال کی یہ فکر اسلامی حکمرانوں کے قلب و ذہن میں جگہ بنا پاتی ۔
Email:tariqmmirza@hotmail.com