جمعة المبارک‘ 8 ذیقعد 1445ھ ‘ 17 مئی 2024

زور زبردستی کسی کی نہیں مانتے چاہے ہمارا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ اسد قیصر۔ 
اسد قیصر کوئی نوجوان تو ہیں نہیں نہ وہ طالب علم سیاستدان ہیں کہ ایسی جذباتی باتیں کریں اور لوگ اسے سن کر قہقہہ لگائیں اور بات آئی گئی ہو جائے۔ یہ باتیں سکول اورکالج کے کھلنڈرے لڑکوں پر سجتی ہیں۔ ایک معمر سیاستدان کے منہ سے ایسی باتیں سن کر نوجوانوں پر کیا اثر پڑے گا جو پہلے ہی بزرگوں سے ڈرتے نہیں نہ ان کی بات سنتے ہیں۔ وہ تو اور شیر ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے وہ اسد قیصر کا یہ جملہ ازبر کر لیں اور یہ زبان زد عام ہو جائے۔ نوجوان طبقہ اپنے سیاستدانوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اخلاقیات بھی اس میں شامل ہے۔ اب کم از کم یہ غیر اخلاقی جملہ تو کوئی بزرگ برداشت نہیں کرے گا۔ خود اسد قیصر بھی اس وقت والد بزرگوار کے درجہ پر فائز ہوں گے۔ اب کیا وہ یہ بات اپنے بچوں کے منہ سے سننا برداشت کریں گے کہ وہ کسی کی زور زبردستی نہیں مانتے چاہے ان کا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ نہیں ناں۔ تو پھر ایسے جملے بول کر باقی نوجوانوں کی زبان کیوں بگاڑی جائے۔ اس لیے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ بات کرتے وقت سوچ لیا کریں یعنی پہلے تولیں پھر بولیں۔ اسی میں ان کی عزت ہے اور عظمت بھی۔ بے شک یہ بات کرتے ہوئے ان کا دھیان اس طرف نہیں گیا ہو گا ورنہ وہ یہ جملہ نہ کہتے۔ زور زبردستی بڑے ہی کرتے ہیں اپنی بات منوانے کے لیے چھوٹوں کے ساتھ مار پیٹ بھی ہوتی ہے۔ مگر اس کا مقصد ناجائز یا غلط نہیں ہوتا بلکہ یہ سمجھانے کا انداز ہوتا ہے تاکہ چھوٹے غلط بات یا کام سے باز رہیں۔ 
30 جون کو سیاست میں جوڈو کراٹے کا بڑا مقابلہ ہو گا: شیخ رشید۔
لگتا ہے وسط ایشیائی ریاستوں میں تندور پر نان لگانے اور وہاں کے پ±رلطف تندوری نان کھانے کے بعد شیخ جی کی طبیعت پھر بحال ہو رہی ہے اور ان کی پرانی یاداشت بھی واپس آنے لگی ہے۔ آخر کب تک کوئی اپنے ہنر سے کہہ لیں یا کاروبار سے لاتعلق رہ سکتا ہے۔ سیاست تو زمانہ طالب علمی سے شیخ رشید کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ کہاوت ہے چور چوری سے جائے ہیراپھیری سے نہ جائے۔ تو جناب کچھ عرصہ خاموشی کے بعد اب شیخ جی نے پھر سیاسی میدان میں اپنی دری بچھا کر چھتری تان کر پیشینگوئیوں کا اڈہ دوبارہ کھول لیا ہے۔ مگر اب وہ پہلے جیسی بات کہاں ہو گی ان کی پیشینگوئیوں میں۔ یعنی ”مگر وہ بات کہاں مولوی مدن جیسی“ کی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان کی پہلے ہی صد فیصد پیشنگوئیاں ناکام ثابت ہونے کی وجہ سے اب فال نکالنے کے لیے لوگ کم ہی ان کے اڈے کا رخ کریں گے۔ البتہ چسکے کے شوقین مجمع لگا کر گرمئی بازار والا ماحول بنا سکتے ہیں۔ میڈیا کا کیا ہے وہ تو ایسی باتوں سے مزے لیتا ہے اور اسے زمانے کے لیے موضوع بحث بناتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں شیخ جی نے 30 جون کی تاریخ دیتے ہوئے پھر ایک پیشن گوئی کرتے ہوئے سیاسی میدان میں جوڈو کے بڑے مقابلے کی بات کی ہے۔ لوگوں کے کان کھڑے ہو گئے ہیں اور اب اندر والے اور باہر 


والے اس پر بیانات کا سپنوں کا طوفان برپا کر دیں گے کہ30 جون کو کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے جبکہ شیخ رشید کہتے ہیں اس مقابلے میں فتح سچ کی ہو گی۔ اب معلوم نہیں سچ کو جوڈو کے مقابلوں میں اترنے کا شوق کب سے ہونے لگا ہے۔ جھوٹ تو سچ کا کہیں بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ خود شیخ جی کو بھی احساس ہے کہ وہ سچ کے ساتھ نہیں تبھی تو کہہ رہے ہیں کہ میں مقدمات کا سامنا کرتے کرتے تھک گیا ہوں۔ اس لیے اب بہتر ہے کہ سزائیں سنا کر ان کی جان چھوڑی جائے۔ لگتا ہے شیخ جی بہت جلد ہی تنگ آ گئے ہیں ا±کتا گئے ہیں چوہے بلی کے کھیل سے۔ 
بھارتی مصالحوں میں کینسر کا سبب بننے والے اجزا کی موجودی کا انکشاف۔
 بھارتی مصالحوں کی تجارت دنیا بھر میں ہوتی ہے۔ 180 ممالک میں بھارتی مصالحے خریدے جاتے ہیں۔ یوں بھارت سالانہ ان مصالحوں کی تجارت سے 14 ارب ڈالر کماتا ہے۔ مشرق بعید کے ممالک میں تیز ترش مصالحوں کی مانگ زیادہ ہے کیوں کہ وہاں کے لوگ سپائسی کھانے پسند کرتے ہیں اس کے علاوہ برصغیر میں بھی تیز مصالحے پسند کئے جاتے ہیں جہاں بھارتی مصالحوں کی مارکیٹیں ہیں۔ اب ہانگ کانگ اور سنگاپور نے چند سال پہلے بھارتی مصالحوں میں خطرناک صحت دشمن اجزا کی موجودگی کے باعث ان کو منگوانے پر پابندی لگا دی تھی۔ اب امریکہ اور یورپی یونین کے تحقیقاتی اداروں نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی مصالحوں میں ایسے اجزا پائے گئے ہیں جو کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے بعد تو عالمی ادارہ صحت اور دیگر ممالک نے ان کے استعمال کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ان سے اجتناب کا مشورہ دیا ہے جس سے عالمی سطح پر بھارتی مصالحوں کی تجارت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ جس سے اسے کافی نقصان ہو سکتا ہے۔ 
اب معاملہ انسانی صحت کا ہے اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کر سکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی آج کل طرح طرح کے مرچ مصالحوں کے اشتہارات نے دھوم مچا رکھی ہے۔ ہر گھر میں ان مصالحوں کے دیوانے اپنے پکوانوں میں انہیں استعمال کرتے ہیں۔ اب ذرا کوئی ان کی بھی خبر لے کہ کہیں ان کے اندر کوئی مضر صحت اجزا تو نہیں پائے جاتے جن کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے۔ 
کپتان کو یہودی ایجنٹ کہنا سیاسی بیان تھا۔ مولانا فضل الرحمن۔
شکر ہے مولانا کو یہ کہنے کی توفیق ہوئی اور یوں انہوں نے اسے سیاسی بیانیہ قرار دیدیا۔ اب کیا کپتان بھی ایسی ہی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ڈیزل والے بیانیہ پر معذرت کریں گے یا اسے سیاسی بیانیہ قرار دے کر اسے غلط ثابت کریں گے۔ مولانا کے یوٹرن سے لگتا ہے کہ ان کی جماعت اور پی ٹی آئی کے درمیان محبت بڑھ رہی ہے اب یہ سب جانتے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے مگر مولانا بہت جہاندیدہ سیاستدان ہیں نفع نقصان دیکھ کر ہی فیصلہ کرتے ہیں۔ اب انہوں نے سارا زور موجودہ حکومت کے مستعفی ہونے اور نئے الیکشن کرانے پر لگایا ہوا ہے اور وہ بھی پی ٹی آئی کی طرح احتجاجی سیاست کے داعی بن چکے ہیں۔ اب وہ سب برائیاں جو پہلے پی ٹی آئی کی حکومت میں تھیں اب مولانا کو موجودہ حکومت میں نظر آنے لگی ہیں۔ یہ ہے سیاسی عینک کا کمال اسے لگا کر آپ جو چاہیں دیکھیں وہ آپ کو نظر آئے گا۔ ان باتوں کے باوجود مولانا نے ایک بات کمال کی کہی ہے کہ یہودی ایجنٹ کہنا گالی نہیں ہے۔ چلو یوں گالی گلوچ کی سیاست کا دور اب ختم ہونا چاہیے تاکہ سیاست میں سنجیدگی آئے اور ساتھ مولانا نے کہا ہے کہ ہم سیاسی لوگ ہیں مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتے امید ہے وہ یہ سبق اپنے نئے اتحادی پی ٹی آئی کے بانی کو بھی پڑھائیں گے تاکہ وہاں سے بھی مثبت جواب ملے۔ حکمران تو پہلے ہی مذاکرات کے منتظر بیٹھے ہیں لیکن کہیں سے کوئی صدا نہیں آ رہی۔ اب کچھ امید ہو چلی ہے تو خدا کرے سیاسی امن و سکون کی راہ نکلے۔ ملک کے معاشی بحران کے حل کی کوئی راہ سامنے آئے تاکہ مہنگائی اور بیروزگاری کے عفریت سے جان چھوٹے۔ سیاسی معاملات کا حل بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے۔ کوئی مانے نہ مانے اس کی مرضی۔ 

ای پیپر دی نیشن