وفاقی حکومت نے رواں ماہ مئی کے دوران پٹرولیم نرخوں میں دوسری بار نمایاں کمی کر کے عوام کو مہنگائی میں ریلیف دینے کی جانب عملی پیش رفت کی ہے۔ بدھ کی شب پٹرولیم نرخوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جو رات بارہ بجے نافذالعمل ہوگیا۔ اس نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول 15 روپے 39 پیسے اور ڈیزل سات روپے 88 پیسے فی لٹر سستا کیا گیا چنانچہ آئندہ پندرہ روز کیلئے پٹرول 273 روپے دس پیسے اور ڈیزل 274 روپے آٹھ پیسے فی لٹر دستیاب ہے۔ اسی طرح مٹی کے تیل کی قیمت میں بھی 9 روپے 86 پیسے فی لٹر کمی کی گئی ہے جبکہ لائٹ ڈیزل آئل کے نرخ سات روپے 54 پیسے فی لٹر کم ہوئے ہیں۔ رواں ماہ یکم مئی کو پٹرولیم نرخوں میں ساڑھے پانچ روپے فی لٹر تک کمی کی گئی تھی۔ اس طرح رواں ماہ کے دوران پٹرول کے نرخ مجموعی طور پر 21 روپے فی لٹر کم ہوئے ہیں جو مہنگائی کے ستائے عوام کیلئے یقیناً ایک بڑا ریلیف ہے بشرطیکہ پٹرولیم نرخوں میں کمی کے تناسب سے دیگر اشیاء کے نرخوں بشمول ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی عوام کو ریلیف ملنا شروع ہو۔
بدقسمتی سے ہماری معیشت عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی بیل آئوٹ پیکیج کی خاطر قبول کی جانیوالی کڑی شرائط کے شکنجے میں جکڑی رہتی ہے چنانچہ کوئی حکومت عوام کے مضطرب جذبات کو بھانپ کر بھی انہیں مہنگائی میں خاطرخواہ ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں آپاتی۔ اسکے برعکس آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع وفاقی سالانہ اور ضمنی میزانیوں میں مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر اور نئے ٹیکسوں کی بھرمار کرکے حکومت عوام کیلئے مہنگائی کے سونامی اٹھانے پر مجبور ہوتی ہے جس سے فلاحی ریاست کا تصور بھی مفقود ہو جاتا ہے اور سیاسی و اقتصادی استحکام کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتا جبکہ مہنگائی کے ردعمل میں بڑھتا عوامی اضطراب سسٹم کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنے میں معاون بنتا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ صرف پٹرولیم نرخوں میں کمی سے جستیں بھرتی مہنگائی کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا کیونکہ مہنگائی میں اضافے کا باعث بننے والے دوسرے عوامل اپنی پوری زہرناکی کے ساتھ برقرار رہتے ہیں۔ ان میں بڑے عوامل یوٹیلٹی بلوں کے ہیں جو کم ہونے کے بجائے آسمان کی بلندیوں کی جانب گامزن ہیں جنہیں آئی ایم ایف کے تھمائے چھانٹے کے ذریعے سپیڈ لگائی جاتی ہے اور یہی ہمارے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے بڑھتے مسائل کی اصل وجہ ہے۔
گزشتہ روز بھی حکومت کی جانب سے عوام کیلئے پٹرولیم نرخوں میں نمایاں کمی کی صورت میں بڑے ریلیف کا اعلان کیا گیا جسے آئی ایم ایف کو بجلی‘ گیس مزید مہنگی کرنے کی یقین دہانی کراکے گہنا دیا گیا۔ اس حکومتی اعلان کی روشنی میں بجلی کی بنیادی قیمت سات روپے فی یونٹ مزید بڑھنے کا امکان ہے جس کیلئے حکومت نے نیپرا کو بجلی کے نرخوں میں نظرثانی کی درخواست بھی دے دی ہے۔ اگرچہ وزارت توانائی نے بجلی کے نرخ بڑھانے کی تردید کی ہے تاہم نیپرا کے روبرو نرخوں پر نظرثانی کی حکومتی درخواست اصل زمینی حقائق کی ہی عکاسی کررہی ہے۔ ایسا ہی معاملہ پٹرولیم نرخوں کا ہے جن کے بڑھنے سے روزمرہ استعمال کی ہر چیز حتیٰ کہ جان بچانے والی ادویات کے نرخوں کو بھی آگ لگ جاتی ہے جو پٹرولیم نرخوں میں کمی کے باوجود ٹھنڈی نہیں ہو پاتی اور اس کیلئے تاجروں‘ صنعت کاروں‘ دکانداروں اور خوانچہ فروشوں تک کی جانب سے جواز بجلی‘ گیس کے نرخوں میں اضافے کا پیش کیا جاتا ہے۔
گزشتہ سال جنوری میں پاکستان میں پٹرولیم نرخ 331 روپے 38 پیسے فی لٹر کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئے تھے چنانچہ اس وقت ملک میں مہنگائی کا جو سونامی اٹھا وہ آج پٹرولیم نرخوں میں 55 روپے تک کمی کے باوجود عوام کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے کیونکہ اس دوران بجلی اور گیس کے نرخ بلندیوں پر چلے گئے ہیں جو مہنگائی کے سونامی کو بدستور تھامے ہوئے ہیں۔ یہی وہ زمینی حقائق ہیں جو مہنگائی کیخلاف عوامی اضطراب کو بڑھاتے بڑھاتے آزاد کشمیر جیسی صورتحال کی نوبت لے آتے ہیں اور پھر حکمرانوں کو اس شدید عوامی ردعمل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے جس سے حکومتی رٹ کی کمزوری کا تاثر بھی اجاگر ہوتا ہے اور سسٹم کو بھی جھٹکے لگتے محسوس ہوتے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے عوام کو مہنگائی میں خاطرخواہ ریلیف دینے کے جو اقدامات آزاد کشمیر کے واقعات کی شدت میں کمی لانے کیلئے اٹھائے گئے‘ وہ عام حالات میں بھی تو ممکن ہو سکتے ہیں جس سے جدید اسلامی فلاحی ریاست کا تصور بھی قائم ہو سکتا ہے اور حکمران جماعتوں کی قیادتوں کی عوامی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے حکمران طبقات اپنے تئیں اور ازخود کوئی فلاحی اقدام اٹھانے کا خود کو اہل ہی نہیں بنا پائے۔ اس وقت بھی آئی ایم ایف کی جکڑ بندیاں تو برقرار ہیں جن میں نئے ممکنہ بیل آئوٹ پیکیج کی بنیاد پر مزید اضافہ ہوگا تو مہنگائی کا عفریت عوام کو نگلنے کیلئے مزید موٹا تازہ نظر آئیگا۔ چنانچہ مہنگائی کے ہاتھوں زندہ درگور ہوئے عوام اپنے سخت ردعمل کے اظہار کیلئے جو اقدام آزاد کشمیر میں اٹھانے پر مجبور ہوئے‘ ایسی صورتحال کل کو وہ پورے ملک میں بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک میں پیدا ہونیوالی بدامنی اور عوامی اضطراب سے ہمارا دشمن بھارت ایک نادر موقع سمجھ کر فائدہ اٹھاتا ہے جیسا کہ آزاد کشمیر کی پرتشدد تحریک کے دوران بھارت کو پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنی سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملا مگر سخت عوامی ردعمل والی صورتحال حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوتی ہے۔ اگر عوام پر آئے روز مہنگائی کے ناقابل قبول اور ناقابل برداشت بوجھ لادے جارہے ہوں تو وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق خود طوفان اٹھانے کا راستہ ہی اختیار کریں گے۔ آج بجلی اور گیس کے بلوں میں انتہائی ناروا طریقے سے اضافہ کرکے عوام کیلئے تنگ آمد بجنگ آمد کی نوبت ہی لائی جا رہی ہے جو بجلی اور گیس کی بلاوجہ کی جانیوالی لوڈشیڈنگ سے بھی عاجز آچکے ہیں۔ اس وقت بالخصوص بجلی کی لوڈشیڈنگ کا تو کوئی جواز ہی نہیں نکلتا کیونکہ بجلی کی ترسیل سے متعلق اداروں کی جانب سے اس حقیقت کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ بجلی صارفین کے سولر سسٹم کی جانب آنے کے باعث بجلی کی کھپت میں نصف کے قریب کمی واقع ہو چکی ہے۔ گویا اس وقت نیشنل گرڈ میں وافر بجلی موجود ہے۔ اسکے باوجود بجلی کی لوڈشیڈنگ کرنا دانستاً عوام کو زچ کرنے کے ہی مترادف ہے جبکہ سولر سسٹم کی جانب آنیوالے عوام کے گرد بھی ٹیکسوں کا شکنجہ کسنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔
غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے ستائے عوام کو آج اپنے گوناں گوں مسائل میں حقیقی ریلیف کی ضرورت ہے۔ محض زبانی جمع خرچ‘ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے اور پٹرولیم نرخوں میں کمی کے لالی پاپ عوام کے اطمینان کا باعث نہیں بن سکتے۔ اگر عالمی سطح پر پٹرولیم نرخ گزشتہ چھ ماہ کے دوران 94 ڈالر سے آج 83 ڈالر فی بیرل کی کم تر سطح پر آئے ہیں تو عوام کو عالمی نرخوں کے تناظر میں بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا چنانچہ سسٹم پر عوام کا اعتماد قائم رکھنے کیلئے سسٹم سے مستفید ہونے والے حکمرانوں کو عوام کو مطمئن رکھنا ہوگا۔