مولانا قاری محمدسلمان عثمانی
صلح حدیبیہ سیرت النبی کا ایک درخشندہ باب ہے،اس کا شمار اسلام کے ان تاریخی معاہدات میں ہوتا ہے جنھوں نے اسلام کی تعمیرو ترقی اوراشاعت و فروغ میں خشت اول کا کردار ادا کیا۔اس معاہدے کے تناظر میں آنحضرتؐ کی کفار پر برتری نے تمام سلاطین عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور وہ آنحضرت ؐکی امورملت و مملکت میں کامیابی کا اعتراف و اقرار کیے بغیر نہ رہ سکے۔چھ برس سے مسلمانوں نے خانہ کعبہ کی زیارت نہ کی تھی۔ان کے دل میں اور خصوصاً مہاجرین مکہ کے دل میں کعبہ کے دیدار کا شوق روز بروز بڑھ رہا تھا چنانچہ آپ ؐنے صحابہ کرامؓ کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ زیارت حرم کے لیے مدینہ سے نکلے مسلمانوں کے ساتھ صرف قربانی کے اونٹ تھے اور اسلحہ میں تلوار کے سوا جسے عرب کسی حالت میں تن سے جدا نہ کرتے تھے اور کوئی چیز ان کے پاس نہ تھی۔عرب کے دستور کے مطابق بدترین مجرم کو بھی حج سے نہ روکا جا سکتا تھا اور ایام حج میں حرم کی حدود میں لڑائی جھگڑا منع تھا اس لیے عرب کی اس روایت کے پیش نظر آپ ؐاحرام کی حالت میں مکہ میں جانے کا ارادہ فرمایا۔قریش کو مسلمانوں کی آمد کی اطلاع ملی تو وہ حیران رہ گئے اور مرعوب بھی ہوئے کسی کو عمرہ سے روکنا عرب کی روایت کے خلاف اور قریش کے لئے باعث بدنامی تھا ۔ ایک بھاری نفری کے ساتھ آپ ؐ کا مکہ کی طرف بے خوف و خطر کوچ کرنا ان کے لیے بدر اور خندق کی جنگوں میں ناکامی سے بھی زیادہ ذلت آمیز تھااس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مسلمانوں کو کسی قیمت پر مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے چنانچہ انہوں نے خالد بن ولید کو مسلمانوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے دو سو سواروں کے دستے کا سالار بنا کر بھیجا اور خود بڑے حملے کی تیاری کرنے لگے۔اس پر حضور ؐنے قریش کے پاس اپنے سفیر کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ہماری نیت صرف طواف کعبہ زیارت حرم اور قربانی کی ہے ہم لڑنے نہیں آئے مگر قریش نے اجازت دینے سے انکار کر دیا،اسی دوران حضورؐنے حدیبیہ نامی ایک کنواں کے پاس پڑاؤ ڈالا، قریش کے کچھ نوجوانوں نے حضورؐپر حملے کی نیت سے آئے،صحابہ کرام نے دیکھا تو گرفتار کر لیا مگر جب وہ حضور ؐ کے سامنے آئے تو آپؐ نے ان کے جرم معاف کر کے انہیں رہا کر دیا،اسی اثنا میں عروہ بن مسعود ثقفی قریش کی طرف سے مسلمانوں کو سمجھانے آیا کہ وہ واپس چلے جائیں ورنہ قریش کا لشکر انہیں موت کے گھاٹ اتار دے گا مگر حضور پاک ؐ نے جواب دیا کہ ہم صرف عمرے کے لئے آئے ہیں ہمارا مقصد فساد نہیں اس پر وہ واپس چلا گیا اور مسلمانوں کے حسن سلوک سے بے حد متاثر ہوا۔اس نے اپنی قوم سے جاکر کہا کہ میں نے قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے دربار دیکھے ہیں مگر جو عزت اور عقیدت مسلمانوں کے دلوں میں محمدؐکی ہے وہ کہیں بھی نظر نہیں آتی ۔ اس پر بھی مسلمانوں کو اجازت نہ ملی تو حضوؐنے حضرت عثمان ؓ کو اپنا قاصد بنا کر بھیجا وہ اپنے ایک عزیز ابان بن سعید کی پناہ میں مکہ گئے مگر قریش نے نظر بند کر دیا،ادھر مسلمانوں میں یہ خبر پھیل گئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کر دیئے گئے ہیں۔حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی خبر نے مسلمانوں میں بے حد جوش و خروش پیدا کر دیا حضورؐنے فرمایا کہ خونِ عثمان کا بدلہ لینا ضروری ہے چنانچہ آپ ؐ ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور صحابہ کرام سے جانثاری کا عہد لیا اور حضرت عثمان کی طرف سے خود اپنا دست مبارک رکھا اس بیعت رضوان کو اللہ کی خوشنودی کی بیعت بھی کہتے ہیں،بعد میں معلوم ہوا کہ شہادت عثمان کی خبر غلط تھی لیکن بیعت رضوان کے بعد آپ ؐنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے تیزی سے جنگ کی تیاری شروع کر دی اور مسلمانوں کو تیار رہنے کا حکم دے دیا۔مسلمانوں کی تیاریوں سے قریش گھبرا گئے وہ جنگِ خندق کی ناکامی کے بعد اب نیا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہ تھے۔اس لیے اب قریش نے مذاکرات کے ذریعے جنگ کو ٹالنے کا فیصلہ کیا اور اپنے سفیر آپ کی خدمت میں بھیجنے شروع کیے سفارتی سطح پر یہ آپ کی بڑی کامیابی تھی آخر میں قریش نے عرب کے مشہور خطیب سہیل بن عمرو کو بھیجا اس نے قریش کی طرف سے باقاعدہ صلح کی شرائط پیش کیں جو بظاہر مسلمانوں کے وقار اور مفاد کے خلاف تھیںلیکن درحقیقت ان میں مشرکین کی شکست اور ناکامی کے عوامل چھپے تھے۔صحابہ کرامؓ کی نظر سے یہ بات پوشیدہ تھی اسلئے ان کیلئے شرائط کا قابلِ قبول نہ تھیں لیکن حضور ؐ نے یہ شرائط قبول فرما لیں بہرحال آپ ؐ نے حضرت علی ؓکو مقرر کیا اور فرمایا لکھو ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سہیل نے اس بات پر اعتراض کیا اور اپنی روایات کے مطابق’’باسمک اللھم لکھوایا‘‘ اسی طرح اس نے رسول اللہؐ کے لفظ پر اعتراض کیا اور معاہدے پر محمد بن عبداللہ لکھوایا، یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبد اللہ اور سہیل بن عمرو میں طے ہوا، اس دفعہ مسلمان واپس چلے جائیں اگلے سال حج کیلئے آئے تو صرف تین روز حرم میں قیام کریں گے، اگلے سال آئیں تو ان کے پاس تلوار کے سوا اور کوئی ہتھیار نہ ہو اور وہ بھی نیام میں ہوں، مکہ میں جو مسلمان رہ گئے ہیں جاتے ہوئے انہیں ساتھ لے جائیں بلکہ وہ مکہ میں ہی رہیں۔ قریش میں سے اگر کوئی شخص اسلام قبول کر کے مدینے چلا جائے تو وہ واپس کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ چھوڑ کر مکہ میں آ جائے تو واپس نہ کیا جائے، یہ صلح دس سال کیلئے ہوگی۔شرائط بظاہر کڑی تھیں اور مسلمانوں کیلئے آزمائش تھی اس لیے بعض صحابہؓ ان کو پسند نہ کرتے تھے مگر حضورؐکی حکمت سے کون انکار کر سکتا تھا پھر دونوں فریقوں کے دستخط ہوگئے۔صلح حدیبیہ کے تاریخ اسلام کے اہم ترین واقعات میں سے ہے اس تحریک سے اسلام کی تحریک کا درخشندہ باب شروع ہوتا ہے اس لیے قرآن مجید نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین سے تعبیر کیا ہے اس بحث سے واضح ہوا کہ حضور ? نے اس معاہدے کو قبول کرکے بہت بڑی کامیابی حاصل کی اسی سال یعنی 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد حضرت خالد بن ولید اور حضرت عمر بن عاصؓ ایمان لائے دونوں بعد میں اسلام کے عظیم سپہ سالار بنے۔ حضور ؐنے حضرت ام حبیبہ سے نکاح فرمایا اور ان کا شمار امہات المومنین میں ہوگیا۔ نبی کریم ؐ کی اس سیاسی بصیرت کو اس وقت تو کوئی نہ سمجھ سکا لیکن جنگ بندی کے دوران آنحضرتؐ نے دعوت کا دائرہ وسیع کر دیا،عوام سے نکل کرخواص تک اسلام کا پیغام پہنچایا، سلاطین کو دعوتی خطوط تحریر کیے،صلح کی وجہ سے اپنا اسلام پوشیدہ رکھنے والوں کو بھی اظہار کا موقع ملا۔ نتیجہ یہ ہواکہ صلح حدیبیہ کے ٹھیک دوسال بعدآٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوا،قبائل اسلام میں داخل ہوئے اور اسلام کو تمام ادیان عالم پر غلبہ نصیب ہوا۔
صلح حدیبیہ دین اسلام کا درخشندہ باب
May 17, 2024