اسلام آباد (وقائع نگار+ خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے سینیٹر فیصل واوڈا کے خط کا جواب دے دیا۔ جس میں لکھا کہ آئین پاکستان میں جج بننے کیلئے کسی اور ملک کی شہریت یا رہائش رکھنا نااہلیت نہیں، وکیل سے ہائیکورٹ کا جج بنتے وقت اس سے دوہری شہریت کی معلومات نہیں لی جاتی ہیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کی کارروائی میں یہ بات واضح کی تھی اور بتایا تھا کہ جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا معاملہ جوڈیشل کونسل میں ڈسکس ہوا، سپریم جوڈیشل کونسل نے ڈسکشن کے بعد جسٹس بابر ستار کو جج بنانے کی منظوری دی تھی جبکہ جسٹس بابر ستار نے بتا دیا تھا کہ وہ گرین کارڈ رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ فیصل واوڈا نے جسٹس بابر کی تعیناتی سے قبل گرین کارڈ ہولڈر ہونے سے متعلق ریکارڈ مانگا تھا اور کل پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو خط لکھے 15 دن ہوگئے لیکن جواب نہیں آیا۔ سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا کیخلاف توہینِ عدالت کی کارروائی چلانے کیلئے ازخود نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ سماعت کرے گا۔ بنچ میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی شامل ہیں۔ سماعت آج جمعہ کے روز ساڑھے نو بجے ہوگی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ دریں اثناء فیصل واوڈا نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ نہ معافی مانگوں گا نہ اپنی بات پیچھے ہٹوں گا۔ اگر مجھ پر پراکسی کہہ کر دھبہ لگائیں گے تو میں پیچھے ہٹنے والا نہیں ہوں۔ اگر جج صاحب مجھے پراکسی کہیں گے تو ثبوت بھی پیش کریں۔ میں نے جسٹس بابر ستار کی اہلیت پر کوئی سوال نہیں اٹھایا تھا۔ رؤف حسن ججوں کو ٹاؤٹ کہتے ہیں اس پر کوئی نوٹس لیں۔ اپنی عزت پر گردن کٹوا دوں گا، پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ میں نے کسی جج کا نام لیکر کوئی بات نہیں کی۔ سوال کرنے پر مجھے بھٹو کی طرح پھانسی دینا چاہتے ہیں تو میں حاضر ہوں۔ کوئی گالی دے گا تو میں جواب میں دو گالیاں دوں گا۔ عطاء تارڑ ، مصطفیٰ کمال، محمد طلال چودھری کو نہیں بلایا مجھے سنگل آؤٹ کرکے بلایا گیا۔ جو ہماری پگڑی اچھالے گا ہم اس کی پگڑی کو فٹ بال بنا دیں گے۔ مجھے بانی پی ٹی آئی اور پارٹی نے پریشر ککر میں ڈال دیا تھا۔ میں نے کہا معافی نہیں مانگوں گا۔ میں اپنے مؤقف پر کھڑا رہا۔ بانی پی ٹی آئی نے بوٹ کے معاملے پر معافی مانگنے کا کہا میں نے انکار کر دیا تھا۔