نیب ترامیم کیس، قانون معطل کرنا نظام سے ساز باز: چیف جسٹس

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اگر آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں۔  بانی پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ سابق وزیراعظم نے سکائی بلیو شرٹ پہن رکھی تھی، کیس کی سماعت براہ راست نہیں دکھائی گئی۔ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التوا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مخدوم علی خان آپ اونچی آواز میں دلائل دیں تاکہ ویڈیو لنک پر موجود بانی پی ٹی آئی بھی آپ کو سن سکیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواست سماعت کیلئے منظور ہوئی؟۔ وکیل وفاقی حکومت نے بتایا کہ جی درخواست سماعت کیلئے منظور ہو چکی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیں۔  چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف درخواست کب دائر ہوئی؟۔ وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست 4 جولائی 2022 کو دائر ہوئی، سپریم کورٹ والی درخواست کو نمبر 6 جولائی 2022 کو لگا، سماعت 19 جولائی کو ہوئی۔  جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب کا پورا آرڈیننس بنانے میں کتنا عرصہ لگا تھا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مشرف نے 12 اکتوبر کو اقتدار سنبھالا اور دسمبر میں آرڈیننس آچکا تھا،  چیف جسٹس نے کہا کہ چند ترامیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ کیس قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا، ہم تو چاہتے تھے کیس جلد ختم ہو،  جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مرکزی کیس کی کتنی سماعتیں ہوئی تھیں؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ مرکزی کیس کی مجموعی طور پر 53 سماعتیں ہوئی تھیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسے قابل سماعت ہوا؟ یہ تو بڑا تعجب ہے کہ نیب ترامیم کیس 53 سماعتوں تک چلایا گیا، چند ترامیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2023 میں الیکشن کیس ایسی ہی وجوہات پر ہم دو ججز نے ناقابل سماعت کر دیا تھا، ہم نے کہا تھا جو کیس ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، اگر تب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل ہوتا تو الیکشن بروقت ہو جاتے، لاہور ہائیکورٹ نے جو الیکشن کا فیصلہ دیا تھا اس کیخلاف انٹرا کورٹ حکم جاری نہیں ہوا تھا۔  چیف جسٹس نے جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے مکالمہ کیا کہ آپ جب میرے ساتھ بنچ میں بیٹھے ہم نے تو 12 دن میں الیکشن کرا دیئے، آپ جس بنچ کی بات کر رہے ہیں اس میں خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میں نہیں تھا۔  چیف  نے کہا کہ کیا چیف جسٹس کسی بھی جج کو بنچ سے الگ کر سکتا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ 7 رکنی بنچ نے کہا 90 دونوں میں الیکشن ہوں مگر نہیں ہوئے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ میری سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے صرف 12 دنوں میں الیکشن کرانے کا فیصلہ دیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا، چیف جسٹس ٰ نے ریمارکس دیئے کہ قانون درست نہیں ہے تو اسے کالعدم قرار دے دیں، اگر قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا، آپ کو قانون پسند نہیں تو پورا کیس سن کر کالعدم کر دیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بل کی سطح پر قانون کو معطل کرنا کیا پارلیمانی کارروائی معطل کرنے کے مترادف نہیں؟ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایسے پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کریں؟ ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے، ہم کب تک خود کو پاگل بناتے رہیں گے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید بتایا کہ اگر مجھے کوئی قانون پسند نہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے؟ کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے؟ ایک قانون کو معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کر فیصلہ تو کرتے، کیا قانون معطل کر کے بنچ اس کے خلاف بنا کر دیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اپیل متاثرہ فریق دائر کر سکتا ہے اور وہ کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے، حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس ایند پروسیجر کے تحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا۔  چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی مقدمہ عدالت آئے تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے، قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے۔  قانون کو معطل کرنے کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔  اگر سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کالعدم قرار دے تو کیا حکومت اپیل نہیں کرسکتی؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ بالکل حکومت اپیل کر سکتی ہے،  وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے  بتایا کہ 2022 کے فالو اپ پر 2023 کی ترامیم بھی آئیں تھیں، عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دیں۔  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ان سوالات پر بانی پی ٹی آئی سے جواب لیں گے، بانی پی ٹی آئی یہ نکات نوٹ کر لیں، چیف جسٹس ریمارکس کے ساتھ زیر لب مسکرا دیئے، بانی پی ٹی آئی بھی چیف جسٹس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرائے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے قانون بدل سکتے تھے مگر آرڈیننس لائے، نیب ترامیم کا معاملہ پارلیمانی تنازعہ تھا جسے سپریم کورٹ لایا گیا، یہ ملی بھگت سے معاملہ سپریم کورٹ لایا گیا، عدالت نے وکیل مخدوم علی خان کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا۔  جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مخدوم صاحب کرپشن کے خلاف مضبوط پارلیمان، آزاد عدلیہ اور بے خوف لیڈر کا ہونا ضروری ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں، یہاں تو اسے ختم کرنے کیلئے کوئی اور آرڈیننس لایا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، آرڈیننس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھوپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں، کیا آرڈیننس کے ساتھ تو صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہئیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمان کو مضبوط بنانا سیاستدانوں کا ہی کام ہے۔ علاوہ ا زیں جسٹس اطہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ پگڑیوں کو فٹبال بنانے کا کہہ کر کیا ہمیں دھمکایا جا رہا ہے۔ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ پگڑیوں کو فٹ بال بنائیں گے، ایسا کہنے والے درحقیقت خود کو ایکسپوز کر رہے ہیں کیا آپ اپنی پراکسیز کے ذریعے ہمیں دھمکا رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ نہ ایسا ہو رہا ہے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس  نے کہا کیسے ممکن ہے ایک قانون آگیا اس کے بعد بھی سماعت جاری رہی، کیا ایک شخص اتنا طاقتورہوتا ہے کہ وہ قانون کیخلاف کیس چلاتا رہے اگرمجھے کوئی قانون پسند نہیں تواسے معطل کردوں کیایہ دیانتداری ہے؟۔جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا بل کی سطح پرقانون کومعطل کرنا کیا پارلیمانی کاروائی معطل کرنے کے مترادف نہیں؟دوران سماعت کے پی حکومت کے وکیل نے اگاہ کیا کہ عدالتی کاروائی کی لائیوسٹریمنگ نہیں ہورہی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ اپنی نشست پرجا کربیٹھ جائیں۔  چیف جسٹس نے کہا قانون معطل کرکے اس کیخلاف بنچ بنا کر دیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اپیل متاثرہ فریق دائرکرسکتا ہے اور وہ کوئی بھی شخص ہوسکتا ہے،حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ صرف متاثرہ شخص نہیں قانون کہتا ہے متاثرہ فریق بھی لاسکتا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل منصور اعوان کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے ججوں کو پراکسی کے ذریعے دھمکانا شروع کردیا ہے؟ ہمیں کہا گیا پگڑیوں کو فٹ بال بنائیں گے، ایسا کہنے والے درحقیقت خود کو ایکسپوز کر رہے ہیں، ہم ایسی دھمکیوں کے زیر اثر نہیں آئیں گے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا نہ ایسا ہو رہا ہے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہیے ۔ چیف جسٹس  نے کہا آئندہ ہفتے میں بیرون ملک میں ہوں، آئندہ تاریخ کا اعلان بنچ کی دستیابی کی صورت میں کر دیا جائے گا۔ بعد ازاں نیب ترامیم فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔ عدالت نے قرار دیا کہ آئندہ سماعت بینچ کی دستیابی پر ہوگی۔ عدالت نے عدالت کی بانی پی ٹی آئی کو آئندہ سماعت پر بھی ویڈیو لنک پر پیش کرنے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میں آئندہ ہفتے دستیاب نہیں ہوں، خواجہ حارث صاحب آپ تو کہیں نہیں جا رہے؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جی نہیں میں یہیں ہوں، مجھے کہیں بھی نہیں جانا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بانی پی ٹی آئی بھی جیل سے کہیں نہیں جا رہے، جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...