ہفتہ ‘ 2 محرم الحرام ‘ 1434ھ 17 نومبر2012 ئ


 مونس الٰہی جسے کہے گا ٹکٹ دونگا، صدر کی چوہدریوں کو یقین دہانی۔
 مونس الٰہی کی تو پھر لاٹری نکل آئی، بلاول اور مونس اکٹھے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بھنگڑا ڈالیں گے منظور وٹو جو وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں،لگتا ہے منظور وسان کی طرح انکا نجومی استاد بھی فیل ہوجائیگا، اس مرتبہ نوجوان قیادت الیکشن کمپین چلائے گی،حمزہ شہباز،مونس الٰہی،بلاول بھٹو تو جوان ہیں ۔عمران خان آدھا اور فرزند پنڈی تو ابھی مکمل جوان ہے اس لئے وہ کہتے ہیں ” ابھی تو میں جوان ہوں بہار پر نکھار ہوں“۔ صدر آصف علی زرداری کی چوہدریوں کو ایسی طفل تسلیاں بھی ....ع
” سیاسی لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ “
 سیاسی نجومیوں کی پیش گوئیوں کے مطابق الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی پی پی پی اور (ق) لیگ کی
 ”ٹٹ گئی تڑک کرکے “
والا فارمولا سامنے آجائیگا۔مونس الٰہی تو پھر آئندہ الیکشن میں دلہا میاں بن جائینگے کیونکہ زمانہ قدیم ڈاکیے کو گاﺅں کے لوگ ایسے ہی دیکھتے تھے جیسے خواتین ” دلہے“ کو دیکھتیں ہیں ۔(ق) لیگ کے صدر چوہدری شجاعت نے جس طرح اپنے پی اے سے پیار کرتے ہوئے اُسے ق لیگ کامرکزی جوائنٹ سیکرٹری بنادیا ہے اسی طرح مونس الٰہی بھی ٹکٹیں اپنے دائیں بائیں ہی تقسیم کرینگے پھر:
 ”اندھا ریوڑیاں بانٹے اپنوں میں“
والا محاورہ تو جناب پر خوب صادق آئیگا۔
٭....٭....٭....٭
 سپریم کورٹ کا فیصلہ اور رئیسانی حکومت ایک ساتھ نہیں چل سکتے:سپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی
 پاکستان میں تو سب چلتا ہے،گورنر راج بھی چلتا ہے اور ” ٹی ٹی“ کا راج بھی۔ ڈپٹی کمشنر کے حکم پر ” ہلالِ عید“ کا اعلان بھی ہوتا ہے اور احتجاج بھی، بس جس کی ” لاٹھی اسکی بھینس والا“ فارمولا چلتا ہے،اسلم رئیسانی پر تو ہاﺅس نے اعتماد کا اظہار کردیا ہے،آپ کا پورے ہاﺅس بارے پھرکیا خیال ہے ؟ بھوتانی اور رئیسانی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش مت کریں ، بلوچی عوام کو امن و سکون فراہم کرنے بارے سوچیں۔ وزیراعلیٰ اور سپیکر جس دن بغیر پروٹوکول کے کوئٹہ شہر کا چکر لگا کر واپس پہنچ جائیں اس دن سپریم کورٹ اپنا فیصلہ واپس لینے بارے سوچ سکتی ہے،بلوچستان میں رقصِ ابلیس جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ کو تو اپنے عہدے کی میعاد ، بیگم کی سالگرہ سینڈل کا سائز، نماز عید کی تکبیریں اور اسلام آباد میں صبح و شام گزارنے کے سواتو کچھ یاد ہی نہیں ہوتا، باتیں بھولنے کی بنا پر ہی کہتے ہیں جناب مرغ کی ”اذان“ پر بھی روزہ کھولا جاسکتا ہے چاہے دوپہر کو ہی کیوں نہ ”ککڑوں کڑوں“ کہہ دے۔
جناب جس طرح دو سوکنیں ایک چھت کے نیچے نہیں رہ سکتیں اب ایسے ہی بھوتانی اور رئیسانی ایک اسمبلی میں نہیں رہ سکتے، بس کسی ایک کا جانا ٹھہر چکا ہے چاہے وہ اکیلا جائے یا باقی ساتھیوں کو بھی ساتھ لے جائے۔ البتہ اگر کسی نے جانا ہے تو وہ جائے جس کو سپریم کورٹ نے جانے کا کہا ہے۔
 سابق چیف آئی سی سی نے پاکستان میں انٹر نیشنل کرکٹ بحالی کی حمائت کردی، ہارون لوگارٹ کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں گے: ذکاءاشرف۔
ہارون لوگارٹ پاکستان کے اتنے خیر خواہ کیسے بن گئے ،انہیں کے دور میں تو پاکستان کرکٹ کو ” کھڈے لائن“ لگایا گیا، اپنے دور صدارت میں تو انہوں نے منہ میں ”گھنگنیاں“ ڈالے رکھیں اور پاکستان کرکٹ بارے ”چپ کا روزہ“ نہ توڑا، اب پھر گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر آدھمکے ہیں،آئی سی سی اپنے سابق چیف کے ذریعے کہیں پھر ٹانگ اڑانے کی کوشش تو نہیں کر رہی،احسان مانی ایک خالص پاکستانی اور سابق چیف ایگزیکٹو آئی سی سی ہیں،انکی خدمات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ذکاءاشرف کی کاوشیں صرف میڈیا مہم تک ہی محدود نظر آتی ہیں انکے منصوبے تو کھوکھلے نظر آ رہے ہیں اب انہوں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے جانی دشمن و بال ٹھاکرے کو گلدستہ بھیج کر برف پگھلانے کی کوشش کی ہے جو ناکام ہو گی۔ کراچی میں انٹرنیشنل کھلاڑیوںکی آمد پر پی سی بی نے صوبائی وزیر کھیل کو سپورٹ نہیں کیا۔ذکاءاشرف کو چاہئے کہ آئی سی سی کے موجودہ چیف کو پاکستان بلائیں اور کچھ نہیں تو جناب افغانستان کرکٹ ٹیم کو یہاں بلالیاجائے۔بنگلہ دیشی تو وعدہ کرکے بھی نہ آئے،آئر لینڈ اور زمبابوے سے بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے چین ہمارا دوست ہے اس نے ہر مشکل میں ہمارا ساتھ دیا تو جناب اسے کہیں کہ کرکٹ کی ٹیم جنم دے تاکہ دروازہ تو کھلے ۔چاہے ” دھکا دیکر ہی کھولنا پڑے“ کرکٹ کی ”الف ب“ سے واقف اگر کوئی آدمی چیئر مین پی سی بی ہوتا تو یقین جانیے آج تک ہمارے قبرستان بنے گراﺅنڈوں میں پھول کھلے ہوتے۔
٭....٭....٭....٭
 شدید معاشی بحران نے یورپ میں علیحدگی کی تحریکوں کا رجحان پیدا کردیا۔
 کچھ احباب اب ” بغلیں“ بجا رہے ہونگے اور خوشی سے انکی ” باچھیں“ کھل رہی ہونگی کہ ہماری دعائیں قبول ہوگئیں، جناب ہمارے عوام تو بہت دعائیں کرتے ہیں اگر وہ ساری قبول ہوجائیں تو مغرب کھانے کے ایک ایک لقمے کو ترسے،ابھی تو صرف 20ریاستوں نے انگڑائی لی ہے۔ عربی شاعر شیخ سروجی کےمطابق تو انگڑائی تھکاوٹ دور کرنے اور مزے کیلئے لی جاتی ہے،ہماری خواہش اپنی جگہ ہے وہ اچھی بھی ہوسکتی ہے بری بھی، امریکہ میں بے روزگاری کی شرح 7.9 فیصد ہے اور وہاں کے عوام بلبلا اٹھے ہیں، جناب ہمارے ہاں تو پانی سر سے گزرچکا ہے ۔ لوٹ مار اور کرپشن آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور بقول شیخ رشید کے کچھ لوگ” ستو“ پی کر سو رہے ہیں۔ 20 امریکی ریاستوں کو ” زلف دراز“ کو چھونے کیلئے ابھی وقت لگے گا بہرحال وہ لوگ جو فرماتے ہیں کہ یہ ہماری دعاﺅں کا نتیجہ ہے ان سے درخواست ہے کہ کشمیر اور فلسطین کی آزادی کیلئے بھی دعا کریں کیونکہ پہلے اپنا گھر بسانے اور دوسروں کے راہ راست پر آنے کیلئے دعا کرنی چاہئے ۔ہم بغیر گواہوں کے ”قبول ہے قبول ہے “کے قائل تو نہیں لیکن پھر بھی اس پر ایڈوانس آمین کہہ دیتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن