ژی جن پنگ کو چین کی کمیونسٹ پارٹی کا نیا لیڈر منتخب کرلیا گیا۔ ژی جن پنگ کو ہو جن تاﺅ کی جگہ کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکرٹری بنا یا گیا ہے جبکہ لی کی کیانگ کو چین کے نئے وزیر اعظم کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔ لی کی کیانگ مارچ میں وزیراعظم کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ژی جن پنگ چینی مسلح افواج کے نئے کمانڈر اور چائنیز ملٹری کمیشن کے چیئرمین بھی ہونگے۔ نومنتخب صدر کمیونسٹ پارٹی ژی جین پنگ کا کہنا ہے کہ پرانے چین کو نئے چین میں تبدیل کرینگے۔چین کی اصل طاقت عوام میں ہے، عوام کے اتحاد سے ہر مشکل کا سامنا کرسکتے ہیں۔ پرسکون زندگی چین کے عوام کا حق ہے۔صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم پرویز اشرف نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کو نئی قیادت کے انتخاب پر مبارکباد دی ہے چینی قیادت کے نام اپنے پیغام میں آصف علی زرداری نے کہا کہ ”چینی قیادت کی بلا رکاوٹ منتقلی چینی قیادت اور کمیونسٹ پارٹی کی دانش کی مظہر ہے۔
چین میں سیاسی قیادت کی تبدیلی پرامن طور پر بڑے باوقار طریقے سے ہوئی۔ قبل ازیں 6 نومبر کو امریکہ میں ہونیوالے صدارتی انتخابات میں بھی کوئی ہنگامہ خیزی دیکھنے میں نہیں آئی۔ پاکستان بھی عنقریب انتخابی عمل سے گزرنے والا ہے‘ اس کیلئے امریکہ اور چین میں ہونیوالی سیاسی قیادتوں کی تبدیلی کا پرامن عمل ایک مثال ہونا چاہیے۔ چین میں ژی جن پنگ کرینگے‘ ژی پنگ سٹینڈنگ کمیٹی کے سات ارکان کی معاونت سے آئندہ دس سال کیلئے دنیا کی سب سے مضبوط اقتصادی و افرادی قوت چین کا نظام حکومت چلائیں گے۔ سیاسی مبصرین کا تجزیہ ہے کہ سابقہ قیادت کی طرح حال میں منتخب ہونیوالی قیادت بھی پاکستان سے باہمی تعلقات کو مضبوط تر بنانے کی خواہاں ہے۔
عالمی سطح کے ساتھ ساتھ اس خطے میں بھی چین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ چین نے افغانستان میں بے پناہ سرمایہ کاری کی ہے‘ اسکی یہ خواہش بھی ہے کہ خطے سے امریکی اثر و رسوخ کو کم کیا جائے۔ یوں پاکستان چین کےلئے اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ پاک چین دوستی گزشتہ چھ دہائیوں سے انتہائی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اور چینی قیادت اسے ہمالہ سے اونچا اور سمندروں سے گہرا قرار دیتی رہی ہے۔ گزشتہ قیادت نے تو اسے شہد سے بھی شیریں قرار دیا تھا۔
چین ہمیشہ پاکستان کی اقتصادی‘ صنعتی‘ سماجی اور دفاعی ترقی کیلئے معاون رہا ہے۔ اس ضمن میں اس نے خود کو صرف تعاون تک محدود نہیں رکھا‘ بلکہ چین وہ واحد ملک ہے‘ جو پاکستان کو ٹیکنالوجی کی منتقلی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ کامرہ ری بلڈ فیکٹری‘ ہیوی میکنکل کمپلیکس ٹیکسلا‘ چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ‘ ایٹمی آبدوزوں کی مشترکہ پیداوار بیجنگ کی پاکستان کے ساتھ عملی تعاون کی اہم مثالیں ہیں۔ شاہراہ قراقرم دونوں ممالک کی دنیا بھر میں دوستی کی علامت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ آنیوالے وقت میں بلوچستان میں جاری مشترکہ منصوبے اور گوادر پورٹ جسے مستقبل میں بحری اڈے میں تبدیل کرنے کا پروگرام ہے‘ یہ مثالیں بھی دونوں ممالک کے مابین گہرے روابط کی آئینہ دار ہیں۔
چین پاکستان کی کشمیر پالیسی میں اور پاکستان کی چین کی ون چائنا پالیسی کے حامی رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی افواج میں جاری تعاون کی اس خطے میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ دفاعی پیداوار فوجیوں کی تربیت اور دیگر کئی منصوبے جاری و ساری ہیں۔ چین پاکستان کے توانائی بحران میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے۔ 300 میگاواٹ کے دو پاور پلانٹ اس وقت اپریشن میں ہیں جبکہ چار پلانٹس پر کام مختلف مراحل میں ہے۔ اسی طرح نئے ڈیموں کی تعمیر اور موجودہ ڈیموں کو وسعت دینے میں بھی چین کوشاں ہے۔ ریلوے کی دگرگوں حالت کے پیش نظر چین نئے انجن اور بوگیاں فراہم کرنے کے علاوہ نئے ٹریک بچھانے میں مدد کرنے پر آمادہ ہے۔
گو آج پاکستان اور چین کے تعلقات مثالی ہیں‘ لیکن خارجہ پالیسی بلاشبہ ایک دباﺅ کا شکار ہے جس کے باعث ملکی خودمختاری‘ سالمیت اور قومی وقار کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ ڈرون حملوں اور امریکی حکام کی طرف سے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی دھمکیوں پر چین نے کھل کر باور کرایا کہ پاکستان کی سالمیت کا تحفظ کیا جائیگا۔ پاکستان کو ایسے دباﺅ سے نکلنا ہو گا جو اسکی قومی سلامتی کو متاثر کرے۔ پاکستان کیلئے امریکہ اور چین دونوں کی دوستی آزمودہ ہے۔ چین آزمائش کی ہر گھڑی میں ہمیشہ پاکستان کے شانہ بشانہ رہا‘ دوسری طرف امریکہ نے آزمائش کی گھڑی میں پاکستان کو تنہا چھوڑا ہے۔ پاکستان اپنے تجربات کی روشنی میں امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات‘ تعاون اور دوستی کو فروغ دے۔
سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے اپنے دور اقتدار میں چین کے دورے کے موقع پر سابقہ چینی قیادت کو مشورہ دیا تھا Look to the east (مشرق کا رخ کرو) سابقہ چینی قیادت نے اپنی طرف سے ایسا کر بھی دکھایا۔ موجودہ اور سابقہ چینی قیادتوں کی پالیسیوں میں تو خاص فرق نہیں تاہم موجودہ قیادت گزشتہ کسی بھی چینی قیادت سے بڑھ کر پاکستان کی حامی جانی جاتی ہے‘ ہماری سیاسی قیادت کو چاہیے کہ اپنے سارے انڈے مغرب کی ٹوکری میں ڈالے رکھنے کی روش ترک کرکے چین سے مفاہمت اور تعاون کو مزید بڑھانے کی سعی کرے۔ اسی میں خطے‘ پاکستان اور اسکے عوام کا مفاد وابستہ ہے۔ مغرب اور خاص طور پر امریکہ کی طرف سے پاک چین دوستی کو تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ اسے محدود کرنے کی کوششیں ہر عالمی پلیٹ فارم پر کی جاتی ہیں۔ کچھ عالمی طاقتیں پاکستان چین تعلقات اور گہری دوستی کو پروان چڑھتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ وہ پہلے بھی کئی مرتبہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں رخنہ اندازی کی کوشش کر چکی ہیں۔ پاکستان کی قیادتوں کو انکی سازشوں سے محتاط رہنے اور دباﺅ کو خاطر میں نہ لانے کی ضرورت ہے۔ انہی قوتوں نے پاکستان اور ایران تعلقات اور تعاون کی راہیں مسدود کی ہیں۔ ایسی قوتوں سے پاکستان چین دوستی اور تعلقات کو بچا کر رکھنا نہایت ضروری ہے۔چینی قوم کو نئی قیادت مبارک ہو‘ اس سے یقیناً پاکستان چین تعلقات‘ تعاون اور دوستی کی نئی راہیں کھلیں گی۔