اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی/ ایجنسیاں) پاکستان مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی نے انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں نئی انتخابی فہرستوں کو مسترد کر دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ ووٹر لسٹوں کو فی الفور درست کیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی انوشہ رحمن اور اے این پی کے سینیٹر شاہی سید نے کراچی میں مردم شماری کی بنیاد پر ووٹر لسٹوں کی تیاری اور حلقہ بندیوں پر شدید احتجاج کیا۔ سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد خان نے کمیٹی کو بتایا کہ نئے سرے سے انتخابی فہرستوں پر کام کرنے کا وقت نہیں، جن علاقوں کے حوالے سے ٹھوس اعتراضات سامنے آئیں گے الیکشن کمشن وہاں کی ووٹر لسٹ ری چیک کرنے کے حوالے سے غور کرے گا۔ رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 8کروڑ 43لاکھ 65ہزار 51ہے جن میں سات کروڑ 95لاکھ 51ہزار 425ووٹرز ایسے ہیں جنہوں نے باقاعدہ فارم بھرا جبکہ 4813,626ووٹر نے فارم نہیں بھرا، ان کو نادرا ریکارڈ سے ووٹر لسٹوں میں شامل کیا گیا ان میں 5لاکھ 72ہزار افراد ایسے ہیں جن کا مستقل اور موجودہ پتہ مختلف ہے لہٰذا ان کا اندراج مستقل پتے پر ہی کیا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ کراچی میں کسی ایک قومیت کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ طاقت کے زور پر دوسری قومیتوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرے۔ کراچی میں غلط مردم شماری کی بنیاد پر ووٹر لسٹیں بنائی گئی ہیں جہاں پنجابی، سندھی، بلوچ اور پختونوں کو تکنیکی طریقے سے ووٹ کے حق سے محروم کیا گیا ان کے ووٹ یا تو دور دراز اور غیرمتعلقہ علاقوں میں درج کئے گئے یا پھر حلقہ بندیوں میں تبدیلی کرکے ایک خاص قومیت کو اکثریت ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تمام ووٹرز ان کے اپنے اصل حلقوں میں شامل کئے جائیں۔ کراچی میں نئی مردم شماری کرا کر نئی ووٹر لسٹیں تیار کی جائیں۔ انہوں نے ایک پارلیمانی ذیلی کمیٹی بنانے کا مطالبہ بھی کیا جو اس کام کی نگرانی کرے اور دو ماہ میں اپنا کام مکمل کرے۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ ان کی جماعت نے متعدد بار اپنی شکایات صوبائی الیکشن کمشن اور سابق چیف الیکشن کمشنر کو پیش کی تھیں ان کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ کراچی کی موجودہ ووٹر لسٹیں نائن زیرو میں تیار کی گئی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی ایم این اے انوشہ رحمن نے مطالبہ کیا کہ 48لاکھ 13ہزار 626ووٹ جعلی طور پر ووٹر لسٹوں میں شامل کئے گئے ہیں جنہیں فوری طور پر لسٹوں سے نکالا جائے جبکہ پیپلزپارٹی کی سینیٹر صغریٰ امام اور اے این پی کی سینیٹر بشریٰ گوہر اور سینیٹر زاہد خان نے بھی مذکورہ 48لاکھ سے ووٹوں پر تحفظات کا اظہار کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحاق ڈار نے تجویز دی کہ الیکشن کمشن مذکورہ 48لاکھ سے زائد ووٹر لسٹوں کو ری چیک کرے۔ نادرا کے ڈائریکٹر جنرل مظفر نے ان 48لاکھ سے زائد ووٹوں کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر مکمل طور پر غلط ہے کہ ان لوگوں کی شناخت مشکوک ہے، نادرا ریکارڈ کے مطابق ان لوگوں کی شناخت سو فیصد درست ہے جن میں سے اکثریت نے بذریعہ موبائل فون ایس ایم ایس اپنے ووٹ کی تصدیق کی البتہ انہوں نے الیکشن کمشن کا ووٹ اندراج فارم نہیں بھرا اور گھر گھر پڑتال کے دوران یا تو الیکشن کمشن عملے سے کوتاہی ہوئی یا پھر ان کے لوگوں کا ایڈریس تبدیل ہو چکا ہے، ووٹر لسٹیں آویزاں کی گئیں تو ان کے خلاف کوئی اعتراض جمع نہیں کرایا گیا تاہم ان کے ووٹر لسٹوں سے اخراج کی کوئی ٹھوس بنیاد موجود نہیں۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر ایس اقبال قادری نے کہا کہ ہمیں بھی ووٹر لسٹوں پر تحفظات ہیں، مخالف سیاسی جماعتیں الزامات کی بجائے ثبوت پیش کریں تاہم زیادہ تر کمیٹی ممبران کی جانب سے یہ شکایت سامنے آئی کہ ووٹ ادھر سے ادھر کر دئیے گئے ہیں جوکہ نامناسب ہے۔ دوران اجلاس کمیٹی نے اتفاق کیا کہ کراچی اور بلوچستان کے دو علاقوں چمن اور دکی میں ووٹر لسٹیں ری چیک کی جائیں جبکہ سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد خان نے ممبران کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں اب دوبارہ نئے سرے سے ووٹر لسٹوں پر کام کرنے کا وقت نہیں البتہ جن علاقوں کے حوالے سے ٹھوس اعتراضات سامنے آئیں گے الیکشن کمشن وہاں پر ووٹر لسٹیں ری چیک کرنے کے حوالے سے غور کرے گا۔ خصوصی کمیٹی برائے الیکشن کا اجلاس 22نومبر تک ملتوی کر دیا گیا۔ اے این این کے مطابق پارلیمانی کمیٹی نے سفارشات پیش کی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ 48 لاکھ غیر مصدقہ ووٹوں کی تصدیق کی جائے، انتخابی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں۔ اے این پی نے الزام عائد کیا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز پر ووٹ درج کرنے کے فارم پر کئے گئے جس پر شدید تحفظات ہیں،جعلی ووٹوں کا اندراج ختم کرایا جائے، مسلم لیگ (ن) نے نادرا کے کردار پر اعتراض کیا اور ادارے کو وزارت داخلہ سے الیکشن کمشن کے ماتحت کرنے کا مطالبہ کیا۔ پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کا اجلاس اے این پی کے سینیٹر شاہی سید کی درخواست پر الیکشن کمشن کے دفتر میں ہوا۔ چیئرمین کمیٹی جہانگیر بدر کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں سردار فتح محمد حسنی‘ مولانا عبدالغفور حیدری‘ اسحق ڈار‘ انوشہ رحمن‘ صغریٰ امام‘ ایس اے اقبال قادری‘ عطاءالرحمن سمیت سیکرٹری الیکشن کمشن‘ اشتیاق احمد خان، ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمشن افضل خان‘ ڈائریکٹر جنرل نادرا سید مظفر علی اور دیگر حکام نے شرکت کی۔ سینیٹر اسحق ڈار اور انوشہ رحمن نے تجویز دی کہ نادرا کو الیکشن کمشن کے ماتحت کیا جائے جس پر جہانگیر بدر نے کہا کہ اس سلسلے میں چیئرمین نادرا سے بات کرکے آئندہ اجلاس میں غور کیا جائے گا۔اے این پی کے سینیٹر شاہی سید نے کراچی میں ووٹوں کے غلط اندراج اور دیگر شکایات و ثبوتوں پر مبنی سی ڈی الیکشن کمشن کو پیش کی۔ شاہی سید نے کہاکہ ہماری شکایت دور نہ کی گئی تو یہ ثبوت میڈیا کو پیش کردئیے جائیں گے۔ کمیٹی کراچی کے لاکھوں لوگوں کو ووٹ کا حق دلائے۔ حلقہ بندیوں کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق دوبارہ سیاسی جماعتوںکی مشاورت سے درست کیا جائے۔کراچی میں جعلی ایڈریسوں پر شناختی کارڈ بنائے جا رہے ہیں اور انتخابات میں 99 فیصد پولنگ ہو جاتی ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ کراچی میں امن نہ ہوا تو پاکستان میں بھی امن نہیں ہوگا۔ایم کیو ایم کے سینیٹر ایس اے اقبال قادری نے کہاکہ شاہی سید ہمارے قابل احترام ہیں تاہم انکے الزامات غلط ہیں۔ 2008ءکے انتخابات کو پارلیمنٹ شفاف قرار دے چکی ہے جو الزامات شاہی سید نے لگائے ہیں ہم انہیں مسترد کرتے ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت ملک میں ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹر رجسٹرڈ ہیں جن میں سے آٹھ کروڑ نے مرضی سے ووٹ رجسٹرڈ کرائے، ان کی تصدیق ہوئی ہے تاہم 48 لاکھ ووٹروں سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ جن ووٹروں سے رابطہ نہیں ہوا انہیں ان کو مستقل ایڈریس پر رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔ سندھ میں 6لاکھ 62 ہزار 745‘ پنجاب میں 32 لاکھ 11 ہزار 936‘ بلوچستان میں ایک لاکھ ایک ہزار 163‘ خیبر پی کے میں 5 لاکھ 83 ہزار 810‘ اسلام آباد میں 2 لاکھ 4 ہزار 167 اور فاٹا میں ایک لاکھ 67 ہزار 907 ووٹر ایسے ہیں جن کی جانچ پڑتال نہیں ہوسکی تاہم ان ووٹرز کو حتمی ووٹر لسٹ سے نکال نہیں سکتے۔ اگر کمیٹی رولنگ دینا چاہتی ہے تو ہم اس کیلئے تیار ہیں۔سینیٹر صغریٰ امام‘ مولانا عبدالغفور حیدری‘ مولانا عطاءالرحمن‘ بشریٰ گوہر و دیگر ارکان نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ان ووٹرز کو نکالا جائے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ ان کی تصدیق ضرور ہونی چاہئے۔ سینیٹر صغریٰ امام نے کہ 48 لاکھ ووٹوں کو تقسیم کیا جائے تو یہ فی حلقہ 21 ہزار ووٹ بن جاتے ہیں جن سے الیکشن نتائج تبدیل ہوسکتے ہیں۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ بلوچستان میں ووٹر لسٹیں کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمشن افضل خان نے کمیٹی کو بتایا کہ اب تک زیادہ تر شکایات کراچی اور بلوچستان کے دو حلقوں سے آئی ہیں۔ بلوچستان میں جن اساتذہ نے جعلی فارم پر کئے ان کیخلاف کارروائی ہورہی ہے۔ ہم تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے الیکشن شفاف بنانے کیلئے اقدامات کررہے ہیں۔ بشریٰ گوہر نے کہا کہ آج بھی جعلی ووٹ درج ہورہے ہیں۔ نادرا کے اندر کرپشن ہورہی ہے۔ شاہی سید کے تحفظات سنے جائیں۔ قبل ازیں سیکرٹری الیکشن کمشن نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ان 48 ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکتی۔ ان میں سے اگر 48 ووٹ بھی ایسے نکال کر لے آئیں جو جعلی ہوں تو الیکشن کمشن بھرپور کارروائی کرے گا۔ نادرا کے ڈائریکٹر جنرل سید مظفر علی نے کہا کہ نادرا نے جو بھی شناختی کارڈ بنائے ہیں ان کا تمام ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔ اگر کوئی دیکھنا چاہے تو ہم دکھا سکتے ہیں 22 نومبر کو نادرا ہیڈکوارٹر میں کمیٹی کے تمام ارکان کو تفصیلی بریفنگ دی جائے گی۔ خصوصی کمیٹی نے عزم ظاہر کیا گیا کہ پارلیمنٹ اور الیکشن کمشن مل کر صاف شفاف اور منصفانہ وغیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے نئی تاریخ رقم کریں گے۔چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے قومی آراء سے آگاہی کے لیے چاروں صوبوں کے دوروں کا فیصلہ کیا ہے ۔ 28 نومبر کو بلوچستان سے ان دوروں کا آغاز کریں گے۔ خصوصی کمیٹی نے ووٹرز کی گھرگھر میں تصدیق کے دوران 48 لاکھ ووٹروز کی تصدیق نہ ہونے کے معاملے کے حل کے لیے نادرا سے رائے مانگ لی ہے ۔ اس ضمن میں 22 نومبر کو نادرا ہیڈ کوارٹر میں کمیٹی کو بریفنگ دی جائے گی۔ خصوصی کمیٹی نے کہا ہے کہ ان 48 لاکھ ووٹوں کے بارے میں انتخابات سے قبل کوئی واضح فیصلہ اور پالیسی کا اعلان ناگزیر ہے ۔کیونکہ اس کی بنیاد پر انتخابات کو متنازعہ بنایا جا سکتا ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے کہاکہ سیکرٹری نے بتایا کہ نہ صرف بیلٹ پیپر پر ووٹر کا انگوٹھے کے نشان لگے ہوں گے بلکہ پریذائیڈنگ افسر بھی اپنے انگوٹھے کا نشان لگائے گا۔ مشاہد حسین سید نے چیلنج کیا کہ انکے پاس شواہد ہیں کہ کراچی میں عرصہ دراز سے ہم لوگوں نے نام فہرستوں سے نکال کر ان کے ناموں کو آبائی علاقوں کی فہرستوں میں ڈال دیا گیا ہے۔