ملکوال منڈی بہاﺅالدین میں صدر زرداری ایوانِ صدر سے نکل گئے اور خطاب کیا۔ اس کی اہمیت صاف ظاہر ہے مثبت بھی اور منفی بھی۔ اس سے پہلے تمام تقریبات بلکہ جلسہ عام بھی ایوان صدر میں ہوتے تھے حتیٰ کہ نااہل اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی کے بیٹے کی شادی بھی ایوان صدر میں ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی ساری سرگرمیاں ایوان صدر میں ہوتی ہیں۔ اب وہ ایوان صدر سے نکلے ہیں تو بھی اعتراض ہے۔ اس کا کچھ کریڈٹ نذر محمد گوندل کو بھی جاتا ہے۔ وہ گوند سے گوندل ہیں۔ ایسے چمٹے صدر زرداری کے ساتھ کہ انہیں اپنے گھر میں کھینچ لائے ہیں۔
صدر زرداری کے ارشادات عالیہ کے کچھ گوشے گوشہ عافیت یا گوشہ دولت میں رہنے والے صحافیوں اور سیاسیوں کو نظر نہیں آئے۔ صدر زرداری نے یہ بھی کہا ہے کہ اپنے اوپر کرپشن کے الزامات لگانے والے میڈیا کے لوگوں کو ”انعامات“ میں الجھا دیا ہے۔ جس طرح اب صحافت اور سیاست میں فرق نہیں رہا۔ انعامات اور الزامات بھی رل مل گئے ہیں۔ صحافی جان چھڑاتے پھرتے ہیں کچھ ”عظیم“ صحافی عدالت کی آڑ میں چھپتے پھرتے ہیں۔ قومی ایجنسیاں نہ سہی بین الاقوامی ایجنسیاں سہی۔ بین الاقوامی ایجنسیوں کا پہلا اور آخری مطالبہ ہے کہ قومی ایجنسیوں کے خلاف پروگرام کرو اور فوج کو کمزور کرو۔ صدر زرداری نے کہا کہ آئندہ الیکشن وقت پر ہوں گے اور شفاف ہوں گے۔ عمران اور نواز شریف سمیت سیاستدان خوش ہو گئے۔ اس سے سوال نہیں اٹھتا کہ ان کے ارادے کیا ہیں اور وہ اپنے ارادوں کو پورا کرنا جانتے ہیں جبکہ وہ کہتے ہیں صدر زرداری کی موجودگی میں الیکشن جینوئن نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے صدر کے ان لفظوں پر غور نہیں کیا۔ ملک پانچ سال کی ”فلاسفی“ پر نہیں چل سکتے۔ تمام سیاسی قوتیں 50 سال کے لئے مذاکرات کریں۔ ہم تو کب سے اپنے کالموں میں لکھ رہے ہیں کہ انتخابات ابھی نہیں ہوں گے البتہ صدارتی انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے؟ اس کے ساتھ صدر زرداری نے یہ بھی کہا کہ میں نے جوانی کے سات سال جیلوں میں گزارے ہیں۔ جوانی کے سات سال پر غور کریں جوانی تو دیوانی ہوتی ہے۔
صدر زرداری اس تقریر میں جذبات میں نہ آئے۔ غصے میں تو بالکل نہ آئے۔ وہ گڑھی خدا بخش میں بی بی کے مزار کے پاس سیکورٹی سے بند کمرے میں خطاب نہ کیا کریں وہ کھلے عام بولا کریں۔ فضاﺅں کو بھی سیکورٹی سے بند کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا سیاست کو سیاست تک رکھیں دشمنی اور لڑائی نہ بنائیں۔ یہ اشارہ نواز شریف کی طرف ہو گا مگر سیاست کو ”لڑائی“ نہ بنائے جو کامیابیاں انہوں نے حاصل کی ہیں۔ ثابت ہوا کہ سیاست لڑائی سے آگے کی چیز ہے۔ انتقام اور انعام کو رلا ملا اپنا واقعی معرکہ آرائی سے۔ انتقام اور الزام کو اپنے تکبر میں ظاہر کرکے تدبر اور تحمل کو بھول جانے سے کچھ نہیں ملتا۔ صدر زرداری نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہماری سیاست میں جو رکاوٹ ڈالے گا۔ اس کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ اس جدوجہد یا جہاد میں صدر زرداری کو یہ بات یاد رہتی ہے۔ ”جنگ اور محبت میں سب جائز ہے“ محبت بھی ایک جنگ ہوتی ہے مگر کوئی اسے جنگ نہیں کہتا۔ صدر زرداری جنگ کو بھی محبت کی طرح ”لڑتے“ ہیں۔ وہ آخری وقت تک لڑتے ہیں اور وہ پہلا وقت بن جاتا ہے مدمقابل تھک جاتے ہیں۔ وہ تھکن کو لگن بنا کے رکھتے ہیں۔ وہ گالیاں کھا کے بدمزہ نہیں ہوتے۔ بدلہ لیتے ہیں مگر مخالف بھول جاتا ہے کہ میں نے کب ان کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ ان کے خلاف کتنی باتیں ہوئیں مگر انہیں کچھ نہیں ہوا اور انہوں نے بظاہر کچھ نہیں کیا۔ ان کی سیاست میں جنگ اور محبت دونوں کا رنگ ہے۔ دوسرے سیاستدانوں کو صرف رنگ میں بھنگ ڈالنا آتا ہے اور اب ان کے رنگ کو زنگ بھی لگ چکا ہے۔ یہ طے ہے کوئی اسے منفی لے یا مثبت سمجھے۔ کہ سیاست کرنا جس طرح صدر زرداری کو آتا ہے پاکستانی سیاستدانوں کو نہیں آتا۔ ابھی تک پتہ نہیں کہ پاکستان میں کیا ہونے والا ہے۔ جو ادارے جو لوگ صدر زرداری کے خلاف تھے۔ اب حالات ان کے اپنے خلاف ہیں تو صدر زرداری نے برمحل کہا اور برملا کہا۔ ”ہر طاقت پارلیمنٹ کے سامنے جھکتی جا رہی ہے۔ ایبٹ آباد کا ڈرامہ ہوا تو جنرل کیانی اور جنرل پاشا پارلیمنٹ میں حاضر ہوئے۔ جنرل پاشا نے یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ کہے تو ہم استعفیٰ دینے کو تیار ہیں۔ اس کے بعد حسین حقانی سے میمو گیٹ سکینڈل چلوایا اور جرنیل اپنی شکل میں آ گئے۔ حسین حقانی ملک میں آئے پھر امریکہ چلے گئے۔ گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر اور اب تو لکیر بھی مٹ گئی ہے۔ حسین حقانی ایوان صدر کی بجائے وزیراعظم ہاﺅس میں گیلانی صاحب کی پناہ میں رہا۔ جی ایچ کیو پر حملہ ہوا۔ یعنی تینوں فورسز زد میں آئیں جنرل کیانی کی گہری خاموشی اور ضبط و تحمل والی ڈسپلنڈ شخصیت نے پاک فوج کو اب تک حفاظت میں لیا ہوا ہے مگر پریشانی اور گھبراہٹ عسکری قیادت کے حصے میں آئی ہے۔
عدالت کے پیچھے پیپلز پارٹی کے وزیر شذیر لگے ہوئے ہیں۔ فیصل رضا عابدی کی ہرزہ سرائی کے باوجود سپریم کورٹ میں نہیں بلایا گیا۔ ملک ریاض عدالت کے خلاف میدان میں آنے کے بعد بغیر لڑے گھر چلے گئے۔ اب پھر میدان میں اترے ہوئے ہیں مگر اپنے گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ میں نے پہلی بار جاوید چودھری کو ملک ریاض کے سامنے گھبرائے ہوئے دیکھا اس نے جھوٹ بولنے کا انعام بھی آسانی سے قبول کر لیا۔ انعام اور الزام اصل میں دونوں ایک ہیں۔ اپوزیشن کو حکومت میں شامل کرکے اس کی ہوا نکال دی۔ اسے اختیارات پارلیمنٹ کو دے دئیے مگر نااہل وزیراعظم گیلانی کی کرپشن اور کمزوری کی وجہ سے بات نہ بن سکی۔ اب پارلیمنٹ ہی صدر زرداری کی جیب میں ہے تو اختیارات کیا ہوتے ہیں؟
انہوں نے وزیراعظم گیلانی کے ساتھ کیا کیا۔ اب وہ بھی سوچیں کہ اس نے خود اپنے ساتھ کیا کیا؟ آصف ہاشمی سے پوچھ کر بتا دیں۔ اب ایک لطیفہ سن لیں۔ اپنے بالوں میں ایک ”جُوں“ سردار صاحب کے قابو آ گئی۔ اسے جان سے مارنے کی بجائے اپنے کان کے پاس سر کے بالوں میں چھوڑ دیا۔ جب ”جوں“ دوسرے کان کے پاس پہنچی تو سردار صاحب نے پھر پکڑ لیا اور پہلے کان کے پاس چھوڑ دیا۔ یہ عمل کئی بار ہوا تو کسی نے کہا کہ سردار صاحب ایک ہی بار ”جُوں“ کو مار دیں۔ تو سکھ صاحب نے کہا کہ میں اس ”جُوں“ کو تھکا تھکا کے ماروں گا۔ ہر کسی کو آسانی سے پتہ چل جائے گا کہ ”جُوں“ سے کیا مراد ہے۔ اب صدر زرداری کے سارے مخالفین اور انہیں پسند نہ کرنے والے تھک ہار کے بیٹھے ہوئے ہیں۔
قومی اسمبلی میں طارق فیصل نے الزام لگایا کہ صدر زرداری کے عید ملن پروگرام پر دو کروڑ لگے ہیں تو قمرالزمان کائرہ نے کہا کہ پنجاب حکومت لیپ ٹاپ تقسیم کرتی ہے اور حمزہ شہباز نواز شریف مہمان ہوتے ہیں ان تقریبات پر 50 کروڑ خرچ ہو چکے ہیں۔ لیپ ٹاپ سمیت!
ایوان صدر سے میدان صدر تک
Nov 17, 2012