حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے ایک امیر شہر کو یہ مکتوبِ گرامی تحریر فرمایا:’’تم اپنی رعایا سے زیادہ دیر منقطع نہ رہو،کیونکہ امیر رعایا سے الگ رہنے لگے تو لوگ تنگ ہوجاتے ہیںاورخود امیر لوگوں کے مکمل حالات سے باخبر نہ ہوسکے گااورجب اسے حالات کی صحیح خبر نہیں ہوگی تو لوگ اس کے سامنے بڑی چیز کو چھوٹا،چھوٹی چیز کو بڑا،اچھی چیز کو برا اوربری چیز کو اچھا بنا کر پیش کریں گے اوریوں حق باطل کے ساتھ غلط ملط ہوجائے گا۔
امیر بھی انسان ہی ہے ،لوگ اس سے چھپ کر جو کام کررہے ہیں وہ انہیں نہیں جانتا اورانسان کی ہر بات پر ایسے قرائین بھی نہیں پائے جاتے کہ جن سے یہ ادراک ہوسکے کہ اس کی بات سچی ہے یا جھوٹی، لہٰذا اس کا حل یہی ہے کہ امیر اپنے پاس رعایا کی آمد ورفت کو عام اورسہل رکھے (تاکہ لوگوں کی آمد ورفت کی وجہ سے اسے حالات کی صحیح اطلاع ہوسکے اوروہ صحیح فیصلہ کرسکے)اس طرح امیر ہرایک کو اس کا حق دے سکے گا اورایک کا حق دوسرے کو دینے سے محفوظ رہے گا۔
لہٰذا تم دو قسم کے افراد میں سے ایک قسم کے ضرور ہوگے یا تو تم سخی انسان ہوگے اورراہِ حق میں خرچ کرنے میں تمہارا ہاتھ بہت کشادہ ہوگا، اگر تم ایسے ہو اورتم نے لوگوں کو دینا ہی ہے اوران سے اچھے اخلاق سے پیش آنا ہی ہے تو پھر تمہیں ان سے الگ رہنے کی کیا ضرور ت ہے۔
اور اگر تم طبعاً کشادہ دست نہیں ہواوراپنا سب کچھ روک کر اورپس انداز کرکے رکھنے کے خوگر ہوتو پھر لوگ چند دن ہی تمہارے پاس آئیں گے اورجب انہیں تم سے کچھ ملے گا نہیں تووہ خود ہی مایوس ہوکر تمہارے پاس آنا چھوڑدیں گے۔ اس صورت میں بھی تمہیں ان سے الگ رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ویسے بھی لوگ تمہارے پاس اپنی ضرورتیں ہی لے کر آتے ہیں یا تو وہ کسی کے ظلم اورتجاوزکی شکایت کریں گے یا تم سے کسی معاملے میں انصاف کے طلب ہونگے۔رعایا کی یہ ضرورتیں ایسی ہیں کہ ان کی انجام دہی میں تمہاری ذات پر کوئی بوجھ نہیں ہے،لہٰذا تمہیں لوگوں سے کنارہ کش ہوکر رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
اس لیے میںنے تمہیں جو کچھ لکھا ہے اس پر عمل کر کے اس سے فائدہ اٹھائواورمیں تمہیں صرف وہی باتیں لکھ رہا ہوں جن میں تمہارا بھلاہے اورجن سے یقینا تمہیں ہدایت میسر آئے گی۔(ابن عساکر)