راولپنڈی میں فرقہ ورانہ تصادم کے دوران یوم عاشور پر 12 افراد جاں بحق اور 80 سے زائد زخمی ہو گئے۔ بتایا گیا ہے کہ یوم عاشور کا مرکزی جلوس کرنل مقبول امام بارگاہ سے برآمد ہوا۔ فوارہ چوک میں پہنچنے پر دو گروہوں میں تصادم کے باعث اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ مظاہرین نے اس موقع پر توڑ پھوڑ کی اور راجہ باراز میں کلاتھ مارکیٹ کو آگ لگا دی۔ مظاہرین نے پولیس سے بندوقیں چھین کر بھی فائرنگ کی۔ میڈیا کے نمائندوں اور پولیس اہلکاروں کو مظاہرین نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ فساد کو مزید پھیلنے سے بچانے اور ملزموں کو حراست میں لینے کیلئے رینجرز اور فوج کو طلب کرکے شہر کے متعدد علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے واقعہ کا سخت سے نوٹس لیتے ہوئے کمشنر اور آر پی او راولپنڈی سے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی اور تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے۔ ہنگامہ آرائی‘ تصادم اور ہلاکتوں کے بعد راولپنڈی میں دوسرے روز بھی کشیدگی پائی گئی جبکہ اس ہولناک واقعہ کے ردعمل میں مختلف شہروں میں مظاہرے کئے گئے۔
عاشورہ محرم اور یوم عاشور پر حکومت نے سکیورٹی کے ممکنہ حد تک بہتر انتظام کئے تھے‘ بڑے شہروں میں موبائل سروس معطل اور ڈبل سواری پر پابندی رہی۔ مجموعی طور پر یوم عاشور پر امن رہا۔ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے فعالیت کا ثبوت دیتے ہوئے 9ویں محرم کو مختلف شہروں میں دہشت گردی کے منصوبے ناکام بنا دیئے۔ کراچی میں کالعدم تنظیم کے چھ ارکان پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے۔ کوٹ ادو اسلام آباد‘ کوئٹہ اور پشاور میں بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد کرکے ملزموں کو گرفتار کرلیا گیا ۔برآمد ہونیوالے اسلحہ میں 10 کلو وزنی بم ’’اینٹی ٹینک مائنز‘ طیارہ شکن توپیں‘ سینکڑوں کی تعداد میں دستی بم‘ ڈیٹونیٹرز اور خودکش جیکٹوں سمیت آئی ڈی ڈیوائس ریموٹ اور چائنہ فیوز وغیرہ شامل ہیں۔ اگر دہشت گرد یہ اسلحہ استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو یوم عاشور پر ملک آتش فشاں بن جاتا۔
یوم عاشور پورے ملک میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا اور ملک دہشت گردی سے محفوظ رہا لیکن راولپنڈی میں فرقہ واریت نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ رپورٹس کے مطابق راولپنڈی کے مرکزی جلوس کی سکیورٹی پر پانچ ہزار اہلکار تعینات تھے ‘ اسکے باوجود شرپسند عناصر کو انکے گھنائونے عزائم کی تکمیل کا موقع مل گیا۔ مظاہرین کی طرف سے پولیس سے بندوقیں چھین کر فائرنگ کرنے سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا پولیس اہلکار اتنے اناڑی ہیں کہ استعمال کے موقع پر اپنی بندوق شرپسندوں کے حوالے کر دیں۔ حکام نے کیا خانہ پری کیلئے غیرتربیت یافتہ رضاکاروں کو اسلحہ تھما کر جلوس کی حفاظت پر مامور کر دیا تھا؟
آج پورا ملک دہشت گردی اور لاقانونیت کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند‘ فاٹا میں عسکریت پسند اور کراچی میں بھتہ خوروں نے امن کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ کوئٹہ سمیت ملک کے کئی حصوں میں فرقہ واریت انسانیت کا خون چاٹ رہی ہے۔ راولپنڈی کی فرقہ واریت کے اثرات دیگر شہروں تک پھیلتے محسوس ہو رہے ہیں۔ ملتان اور چشتیاں میں ہنگامے ہوئے‘ جس کے بعد فوج طلب کرلی گئی۔ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس وین پر فائرنگ سے تین اہلکار جاں بحق ہو گئے‘ یہ بھی فرقہ واریت کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ پنجاب حکومت نے آنکھیں کھلی رکھنے کا ثبوت دیتے ہوئے راولپنڈی میں کرفیو نافذ کردیا۔ یہی حالات پر قابو پانے‘ ملزموں کو کٹہرے میں لانے کا بہترین طریقہ ہے۔ حکومت نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا‘ اب اس معاملہ میں کسی قسم کی مصلحت سے کام لیا جائے‘ نہ کوئی دبائو قبول کیا جائے۔ شرپسندوں کی ٹی وی فوٹوز موجود ہیں‘ ان سے مدد لے کر ایک ایک کلپرٹ کو ڈھونڈ نکالا جائے۔ ان کا شفاف ٹرائل کرکے دوسروں کیلئے عبرت کا نشانہ بنا دیا جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے‘ مجرموں کو کچھ حکام کی پشت پناہی حاصل تھی‘ اسکی خصوصی تحقیقات کرائی جائے۔ حکومت نے اگر مصلحت سے کام لیا یا دبائو میں آئی تو فرقہ واریت کی آگ بری طرح بھڑک سکتی ہے جس میں ہم پہلے ہی جل رہے ہیں۔
آج دہشت گردوں نے پورے ملک کو بارود کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ کوئی بھی شخص کہیں بھی محفوظ نہیں۔ جس ملک کے تین جرنیل دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں‘ جی ایچ کیو‘ مہران نیول اور کامرہ ایئربیس کے اندر گھس کر دہشت گرد تباہی مچا دیں‘ قائداعظم ریذیڈنسی کو جلا دیا جائے‘ ایک دن میں مسلکی اور مذہبی مخالفت پر سینکڑوں انسانوں کی لاشیں گرا دی جائیں‘ وہاں کوئی بھی بستی‘ گلی اور انسان کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟
پاکستان میں شدت پسندی‘ علیحدگی اور فرقہ واریت کی وبا اچانک اور ایک روز میں نہیں پھیلی‘ دہشت گردی و تخریب کاری کی پہلی واردات کو ٹیسٹ کیس بنالیا جاتا تو دہشت گردی اپنی موت آپ مر جاتی۔ فرقہ واریت‘ علیحدگی پسندی اور بھتہ خوری جیسی خرافات اس لئے بڑھتی گئیں کہ انکی روک تھام کیلئے حکمرانوں اور حکام نے مصلحت سے کام لیا۔ قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو مقدم رکھا‘ آج بھی حکمران مصلحتوں سے بالاتر نظر نہیں آتے۔ دہشت گردوں‘ بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرز‘ علیحدگی پسند اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والوں سے نمٹنے کیلئے دوٹوک فیصلے کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔
موجودہ مخدوش حالات کے باوجود بھی حکومت پنجاب کا راولپنڈی کے امن کو تباہ ہونے سے بجانے کا فیصلہ اور اقدامات اطمینان بخش ہیں۔ کرفیو سے عوام کو پریشانی تو ہو گی مگر شرپسندوں سے نجات کیلئے یہی مناسب طریقہ ہے۔ Nip the evil in the bud مقولے پر عمل کیا جاتا تو حالات اس نہج پر نہ پہنچتے کہ آج ہم اپنے گھروں اور گلیوں بازاروں میں بھی محفوظ نہیں۔ حکومت نے جس حکمت عملی اور جرأت سے راولپنڈی کے حالات کنٹرول کرنے اور مجرموں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اسی جذبے اور جرأت سے دہشت گردی‘ علیحدگی پسندی‘ فرقہ پرستی اور بھتہ خوری و ٹارگٹ کلنگ پر قابو پانے کی کوشش کی جائے تو اس میں یقیناً کامیائی ہوگی۔