اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ راولپنڈی کے واقعہ سے پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے، ریاست بھی گذشتہ کئی برسوں سے فرقہ واریت میں فریق بن گئی، اس غلطی کا خمیازہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں، فرقہ واریت کے جراثیم ریاستی اداروں اور اہلکاروں میں چلے گئے ہیں اسکا نتیجہ ہے کہ ہماری عبادتگاہیں، دفاعی تنصیبات محفوظ نہیں، سانحہ راولپنڈی کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائیگا۔ لندن میں بھی جلوس نکلتا ہے اور یوم عاشور کے حوالے سے ذکر کیا جاتا ہے لیکن مسلمان ملک میں امن قائم نہ رہ سکا۔ علماء کرام امن کیلئے مثتب کردار ادا کر رہے ہیں، نیکی کا کام کرنیوالے علماء سے حکومت تعاون کریگی، ان کیلئے خود دریاں بچھائوں گا۔ نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وزیراعظم قومی ذمہ داریاں پوری کرنے بیرون ملک جاتے ہیں۔ سیاست، معاشی، معاشرتی سمیت تمام محاذوں پر لڑنا ہوگا، مسائل کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر دیکھنا ہے۔ منور حسن کے بیان پر آئی ایس پی آر نے درست بیان دیا جو اسکا فرض تھا جبکہ حکومت نے اپنے عمل میں جواب دیا۔ فوج حکومتی پالیسی کے تحت جوانوں کی قربانی دے رہی ہے، سیاسی جماعت نہیں۔ منور حسن سے معافی کا مطالبہ کیا تھا ایک سوال پر کہا کہ کارگل قومی پالیسی نہیں تھی۔ منور حسن کے الفاظ نے فوج کو دکھی کیا ان کی ذمہ داری ہے کہ دکھ دور کریں۔ وزیراعظم کو خط میں جماعت اسلامی کی 60 سالہ کارکردگی کی وضاحت کی گئی۔ منور کے بیان اور الفاظ کی نہیں۔ ایک سوال پر کہا کہ اکبر بگٹی فوج کے ساتھ نہیں لڑ رہے تھے، انہوں نے جہاد کا اعلان یا ریاست کے خلاف بغاوت نہیں کی جان کی پناہ کیلئے پہاڑوں میں دربدر ہوئے، اپنے جمہوری حقوق کیلئے لڑ رہے تھے ان کی لڑائی مشرف کے ساتھ تھی وہ وزیر دفاع بھی رہے، مذہب اللہ اور بندے کے درمیان رشتہ تھا جسے ہم نے سیاست اور خارجہ پالیسی میں بھی استعمال کیا، ملک میں آئین کی بالادستی کو برقرار رکھیں تو کوئی ہمارے معاملات میں مداخلت نہیں کریگا۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی جنرل کیانی سے ملاقات کا مقصد پنجاب میں سکیورٹی کے امور، انسداد دہشت گردی فورس، سیلاب زدہ علاقوں میں فوج کی مدد کے امور شامل تھا۔ دوسرے صوبوں کو ملاقات سے نہیں روکا، آرمی چیف کی تقرری آئین کے مطابق ہو گی، حالت جنگ میں کمانڈر تبدیل نہیں کرسکتے، ہم آرمی چیف کو اختیارات کے ساتھ آخری لمحہ تک عہدے پر موجود دیکھنا چاہتے ہیں، ماضی میں حالت جنگ میں نہیں تھے۔ میڈیا پر بات نہ کی جائے، وزیراعظم کے فیصلے کا انتظار کیا جائے، طالبان سے مذاکرات پر حکومت نے غلط بیانی نہیں کی حکیم اللہ کی ہلاکت سے ایک روز پہلے حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا تھا کہ اگلے روز علماء کا وفد بنوں جا رہا ہے۔ اگر قبائلی علاقے محفوظ نہیں تو ہمارے شہر محفوظ نہیں، انسانیت کا نقصان کہیں بھی ہو ہمیں دکھ ہوتا ہے ہم نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا، طالبان نے ہماری جانوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی کے حوالے سے چودھری نثار کے بیان پر انہوں نے کہاکہ وہی مناسب جواب دے سکتے ہیں، امریکہ سے بات کر سکتے ہیں کہ آپکے اقدامات سے دشواری پیدا ہوتی ہیں۔