راولپنڈی+ ملتان+ چشتیاں+ ہارون آباد (نیوز رپورٹر+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نامہ نگاروں سے+ نوائے وقت رپورٹ) راولپنڈی میں جلوس کے دوران فوارہ چوک راجہ بازار میں دو گروپوں کے درمیان تصادم میں 10 افراد جاں بحق اور 90 زخمی ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد بڑے پیمانے پر شہر میں آتشزنی، بلوہ، توڑ پھوڑ، نجی و سرکاری املاک تباہ کرنے سے پیدا شدہ صورتحال کے باعث راولپنڈی کے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ شہر میں خوف و ہراس کی فضا پھیل گئی۔ حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے فوج اور رینجرز اہلکاروں کو طلب کیا گیا۔ ملتان میں دو گروپوں کے درمیان فائرنگ سے 26 افراد زخمی ہوگئے۔ صورتحال قابو میں کرنے کیلئے فوج طلب کر لی گئی۔ بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں اور ہارون آباد میں کشیدہ صورتحال کے باعث فوج طلب کر لی گئی۔ چشتیاں میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کے بعد مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ پولیس نے انہیں منتشر کرنے کیلئے آنسوگیس پھینکی اور ہوائی فائرنگ کی۔ صورتحال کنٹرول کرنے کیلئے فوج طلب کی گئی۔ راولپنڈی میں کرفیو پوٹھوہار ٹائون، راول ٹائون اور پولیس ڈویژن کی حدود میں لگایا گیا۔ رات 9 بجے سے 1 بجے تک راولپنڈی میں کرفیو میں نرمی کی گئی۔ ڈی سی او راولپنڈی نے بتایا کہ یہ توسیع 23 گھنٹوں کیلئے آج رات بارہ بجے تک کی گئی ہے۔سات افراد کی نعشیں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال منتقل کی گئیں، زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کرکے وہاں پولیس کا پہرہ لگا دیا گیا۔ شہر کی تمام عبادتگاہوں پر سکیورٹی بڑھا گئی۔ راجہ بازار کا پورا علاقہ سیل کردیا گیا۔ صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ، آئی جی پنجاب خان بیگ فوری طور پر راولپنڈی پہنچ گئے۔ شہر میں ابتری دور کرنے کیلئے لاہور سے آئی حکومتی ٹیم انتظامیہ اور پولیس کے حکام کے ساتھ کمشنر آفس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئی، شہر بھر میں فوج نے گشت شروع کردیا۔ یوم عاشور پر راولپنڈی پولیس نے دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر سخت ترین سکیورٹی انتظامات کر رکھے تھے۔ ہیلی کاپٹروں سے جلوس کی فضائی نگرانی کی جارہی تھی، جب جلوس فوارہ چوک پہنچا تو دن اڑھائی بجے کے قریب اچانک بعض نامعلوم افراد کی جانب سے ہوائی فائرنگ کے ساتھ اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگئی۔ پتھرائو اور پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے استعمال کے ساتھ علاقے میں شدید بھگدڑ مچ گئی۔ پولیس سے کئی افراد نے سرکاری بندوقیں چھین لیں اور ان سے فائرنگ شروع کردی، بعد میں دو سرکاری بندوقیں پولیس نے واگذار کرالیں۔ مشتعل افراد نے راجہ بازار میں کپڑے کے مرکز مدینہ مارکیٹ میں آگ لگا دی جس سے بیسیوںدکانیں جل گئیں، پورے علاقے میں دھوئیں کے بادل چھا گئے۔ آگ قریبی مسجد اور مدرسے تک پھیل گئی۔ 150 سے زائد دکانیں جل کر راکھ ہو گئیں، نقصان کا مجموعی اندازہ ایک ارب روپے سے زائد ہے۔ راولپنڈی میں اس سے حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔ ریسکیو 1122 زخمیوں اور جاں بحق افراد کو نکالنے کیلئے کوشاں رہی۔ فائر بریگیڈ کو آگ بجھانے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ راولپنڈی اور کینٹ کی فائر بریگیڈ کم پڑگئی، اسلام آباد انتظامیہ سے فائر ٹینڈرز طلب کرلئے گئے۔ راجہ بازار، گنج منڈی، لیاقت مارکیٹ، اقبال روڈ، سبزی منڈی، پرانا قلعہ، کشمیری بازار، لیاقت روڈ، نیا محلہ، ڈنگی کھوئی، ٹائر بازار، کلاں بازار، سٹی صدر روڈ، بوہڑ بازار، ٹرنک بازار، اردو بازار، کمیٹی چوک، لیاقت باغ اور مری روڈ سمیت کئی علاقے شدید فائرنگ، پولیس کی جانب سے ہوائی فائرنگ، آنسو گیس کے گولے چلانے، مظاہرین کے شدید پتھرائو اور ڈنڈوں کے آزادانہ استعمال سے کان پڑی آواز سجھائی نہ دیتی تھی۔ حالات کنٹرول کرنے کیلئے انتظامیہ نے شروع میں ہی فوج کی مدد طلب کر لی، فوج کی چھ کمپنیوں نے انتہائی کشیدہ حالات کو کنٹرول کرنے میں مدد دی فوج نے وہاں موجود لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس علاقے سے دور ہوجائیں تاہم صورتحال میں بہتری آنے پر جونہی فوج کی واپسی ہوئی تو کچھ دیر بعد دوبارہ ہنگامے پھوٹ پڑے کئی مقامات پر دکانوں، مارکیٹوں اور کئی سرکاری و نجی املاک کو نذر آتش کرنے کی اطلاعات آنا شروع ہوگئیں، صورتحال تیزی سے بے قابو ہونے کے بعد کمشنر راولپنڈی نے حکومت پنجاب سے درخواست کی راولپنڈی میں حالات کنٹرول کرنے کیلئے فوری کرفیو نافذ کیا جائے، اس دوران آئی جی پنجاب خان بیگ بھی راولپنڈی پہنچ گئے۔ انہوں نے آر پی او اور کمشنر سے ملاقات کر کے راولپنڈی میں صورتحال کی سنگینی کے حوالے سے معلومات لیں جن سے فوری طور پر حکومت پنجاب کو مطلع کر دیا گیا۔کمشنر راولپنڈی اور آئی جی پنجاب خان بیگ نے حکومت پنجاب سے درخواست کی کہ راولپنڈی کے حالات حد سے زیادہ بے قابو ہو رہے ہیں جس کے ساتھ ہی حکومت پنجاب نے راولپنڈی میں کرفیو نافذ کردیا۔ اس کرفیو کا نفاذ راولپنڈی کے پوٹھوہار ٹائون اور راول ٹائون کی حدود میں نافذ کیا گیا ۔ راولپنڈی میں کرفیو کے نفاذکے فوری بعد شہر میں فوج اور رینجرز کو بھی طلب کر لیا گیا۔ شہر کی تمام مارکیٹوں، امام بارگاہوں اور مساجد کی سکیورٹی بھی بڑھا دی گئی۔ پولیس کے دستے بھی کرفیو میں فوجی دستوں کے ساتھ ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ اٹک، جہلم، چکوال سے پولیس کی کمک راولپنڈی مدد کیلئے منگوائی گئی۔ کوئیک رسپانس فورس راولپنڈی میں منگوائی گئی۔ راجہ بازار کا علاقہ پولیس نے مکمل طور پر سیل کردیا۔ ہسپتالوں میں زخمی افراد کے علاج معالجہ کیلئے ایمرجنسی نافذ کی گئی۔ راجہ بازار، فوارہ چوک، باڑہ مارکیٹ، اقبال روڈ، کشمیری بازار، پرانا قلعہ، لیاقت روڈ کے علاقے میں پتھرائو اور توڑ پھوڑ کے وسیع مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ کمشنر آفس میں صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ کی زیرصدارت ہنگامی اجلاس ہوا جس میں کمشنر، آر پی او، ڈی سی او، سی پی او اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام شریک ہوئے۔ اس دوران راولپنڈی میں امن و امان کے بریک ڈائون سے پیدا شدہ صورتحال اور اسکے اسباب پر غور کیا گیا۔ رات بھر راولپنڈی میں جن جن مقامات پر مشتعل مظاہرین نے آگ لگائی تھی، وہا ں فائر بریگیڈ کی ٹیمیں آگ بجھانے میں مصروف رہیں۔ آئی این پی کے مطابق نامعلوم افراد نے راولپنڈی کے معروف دارالعلوم تعلیم القرآن کو بھی آگ لگا دی، دارالعلوم کی مسجد کے پیش امام اور مدرسہ کے بچے بھی فائرنگ میں جاںبحق ہوگئے۔ راولپنڈی کی انتظامیہ نے شہر میں کشیدگی میں کمی کیلئے نئی حکمت عملی کے تحت علما کرام سے مشاورت کی۔ چشتیاں سے نامہ نگار کے مطابق چشتیاں میں نازیبا الفاظ کے استعمال کے بعد کارکن مشتعل ہوگئے اور امام بارگاہ نذرآتش کردی۔ چوک فوارہ میں ٹائر جلاکر اسلام آباد، کراچی، لاہور، ملتان اور دیگر شہروں کو جانے والی ٹریفک معطل کر دی۔ چشتیاں میں مکمل شٹرڈائون ہڑتال کے بعد مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے شیل پھینکے اور ہوائی فائرنگ کی اور کئی گھنٹے ہائی وے روڈ میدان جنگ بنا رہا۔ دو دکانوں کو آگ لگا دی گئی جس کے بعد فوج کو طلب کر لیا گیا۔ فوجی جوانوں نے شہر میں پہنچتے ہی کنٹرول سنبھال لیا تاہم بعدازاں صورتحال بہتر ہونے کے بعد فوج واپس چلی گئی، رینجرز نے کنٹرول سنبھال لیا۔ پولیس اور مظاہرین میں گھنٹوں سے جاری پتھرائو کے نتیجے میں کئی پولیس اہلکار اور مظاہرین زخمی ہو گئے۔ صورتحال کے باعث تعلیمی ادارے تاحکم ثانی بند کر دئیے گئے۔ بہاولنگر سے نامہ نگار کے مطابق چشتیاں کے واقعہ کیخلاف بہاولنگر میں جلوس نکالا گیا اور ہڑتال کی گئی۔ ہارون آباد سے نامہ نگار کے مطابق ہارون آباد میں انجمن تاجران اور اہلسنت و الجماعت کی اپیل پر مکمل شٹرڈائون ہڑتال ہوئی، احتجاجی ریلیاں اور دھرنے دئیے گئے۔ پولیس کا لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال، چشتیاں کے واقعہ کے حوالے سے ہارون آباد میں کشیدگی شدت اختیار کر گئی۔ صورتحال کے پیش نظر اسسٹنٹ کمشنر ہارون آباد آصف محمود نے ڈی سی او بہاولنگر سے ہارون آباد میں فوج بھجوانے کی درخواست کی جس کی بنا پر ہارون آباد میں فوج نے گشت شروع کردیا اور حالات پرقابو پا لیا۔ فورٹ عباس سے نامہ نگار کے مطابق فورس عباس میں ہنگامی طور پر اے سی فورٹ عباس نے امن کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا۔ چشتیاں کے واقعہ کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا گیا، چوک فوارہ میں ٹائر جلاکر احتجاج کیا گیا، اہلسنت و الجماعت کے کارکنوں نے مطالبہ کیا کہ نازیبا الفاظ استعمال کرنے والوں کو فوراً گرفتار کیا جائے۔ ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ چشتیاں سے نامہ نگار کے مطابق ڈی پی او بہاولنگر اطہر اسماعیل ، دو پولیس افسر اور چار کانسٹیبل پتھر لگنے سے زخمی ہو گئے۔ چار گھنٹے بعد ضلعی افسروں نے صورتحال کنٹرول سے باہر ہونے پر فوج طلب کی دوپہر فوج کے آنے پر پولیس نے مظاہرین پر زبردست لاٹھی چارج شروع کردیا، پولیس کی ہوائی فائرنگ سے مظاہرین بھاگ گئے۔ تین شدید زخمیوں کو سول ہسپتال چشتیاں اور دو کو ڈسٹرکٹ ہسپتال بہاولنگر بھجوا دیا گیا۔ ملتان میں زخمی ہونیوالوں میں سے متعدد کی حالت تشویشناک ہے۔ حسین آگاہی، چوک گھنٹہ گھر، فوارہ چوک، نواں شہر، گلگشت اور گردیزی مارکیٹ میں ڈنڈا بردار افراد نے زبردستی دکانیں بند کرا دیں۔ مسلح افراد نے فائرنگ اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کی۔ صورتحال زیادہ خراب ہونے پر فوج کو طلب کر لیا گیا جس نے گھنٹہ گھر چوک سمیت ملتان کے کشیدہ علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ چشتیاں میں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کی، 50 کے قریب افراد کو گرفتار کرلیا گیا، مظاہرین نے پولیس پر بھی پتھراؤ کیا۔ ضلع بہاولپور میں اسلحہ کی نمائش اور جلسہ جلوس نکالنے پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔ ملتان سے خبرنگار خصوصی کے مطابق ڈی سی او زاہد سلیم گوندل اور آر پی او محمد امین وینس نے کہا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ شہر میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے پوری متحرک ہے کسی کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر آنے کی اجازت نہیں دی جائیگی، امن کے قیام تک فوج کی مدد پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ رہے گی اور فوج کے مزید دستے بھی شہر میں تعینات کردئیے گئے ہیں۔ راولپنڈی سے نوائے وقت رپورٹ کے مطابق دارالعلوم تعلیم القرآن کے مہتمم مولانا اشرف علی نے ہنگامی پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ سانحہ راجہ بازار کے دوران دارالعلوم کے 14 طلبا تشدد کر کے قتل کئے گئے اور 106 افراد زخمی، ڈنڈوں سے حملہ کیا گیا‘ جوتوں سمیت مسجد میں داخل ہو کر بے حرمتی کی گئی، پٹرول سے آگ لگائی گئی‘ دارالعلوم کی لائبریری کو نذر آتش کر دیا گیا ‘ قرآن پاک کو شہید کر دیا گیا۔ یہ انتظامیہ اور حکومت کی غفلت کا نتیجہ تھا کیونکہ 3 بجے کے بعد عصر کے وقت جلوس راجہ بازار سے گزرتا تھا ‘ اس بار ہمارے خطبہ جمعہ کے دوران جلوس راجہ بازار میں داخل کردیا گیا۔ جمعیت علمائے اسلام (س) کے مرکزی نائب ناظم انتحابات مولانا محمد عاصم مخدوم نے کہا کہ یہ واقعہ حکومت کی نااہلی ہے، مدرسے کے بچوں کو سرعام قتل کیا گیا۔ حکومت اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے کرفیو نافذ کر دیا اور موبائل سروس بند کر دئیے، حکومت اس واقعہ میں ملوث افراد کو فی الفور گرفتار کر کے سرعام پھانسی دے، ہم ملک گیر احتجاج کی کال دے سکتے ہیں۔ سانحہ راولپنڈی میں جاں بحق ہونے والوں کی نماز جنازہ روز لیاقت باغ میں دن دو بجے ادا کی جائیگی۔ اسکا فیصلہ وفاق المدارس میں ایک خصوصی اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت مولانا احمد لدھیانوی نے کی۔ یاد رہے کہ جاں بحق ہونے والوں کی میتیں ان کے لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ یہ فیصلہ پنجاب حکومت اور علما کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد کیا گیا ہے۔ سربراہ اہلسنت و الجماعت مولانا احمد لدھیانوی نے کہا ہے کہ حالات کو پرامن رکھنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ لوگوں سے اپیل ہے کہ پرامن رہیں۔ سانحہ راولپنڈی میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے سزا دی جائے۔ راولپنڈی کے امن کے قیام کیلئے دشمنوں کی سازش ناکام بنا دیں گے۔ اس سلسلے میں وفاق المدارس میں اجلاس ہوا جس میں مولانا احمد لدھیانوی اور مولانا فضل الرحمن خلیل سمیت دیگر علما نے شرکت کی۔ اہلسنت والجماعت نے راولپنڈی کے واقعہ پر ملک بھر میں 3 روزہ سوگ، وفاق المدارس نے آج یوم احتجاج اور جمعہ کو ملک گیر مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ سنی اتحاد کونسل نے ملزموں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ گذشتہ رات راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے رات 9 سے ایک بجے تک کرفیو میں نرمی کی۔ پنجاب میں فوجی دستوں کے قیام میں توسیع کی درخواست کی گئی ہے۔ پشاور میں مظاہرین نے تھانہ خان رازق کے سامنے ایک گھنٹے تک سڑک کو بند کئے رکھا۔ ساہیوال میں تاجر تنظیموں او سول سوسائٹی نے احتجاجی ریلی نکالی۔ مانسہرہ میں مظاہرین نے ایبٹ آباد روڈ کو ٹریفک کیلئے بند کردیا اور نعرے بازی کی۔ بٹگرام میں بھی مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے احتجاج کیا۔ مظاہرین نے شٹر ڈاؤن کر کے شاہراہ ریشم پر دھرنا دیا جو کافی دیر تک جاری رہا۔ اہلسنت والجماعت نے مطالبہ کیا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری واقعہ ازخود نوٹس لیں۔ اسلام آباد میں موبائل فون سروس رات ایک بجے سے آج دوپہر 2 بجے تک بند رہے گی۔ موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو آگاہ کر دیا ہے۔ راولپنڈی میں موبائل فون سروس غیر معینہ مدت تک بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع ٹیلی کام نے کہا ہے کہ راولپنڈی میں موبائل فون سروس تاحکم ثانی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ موبائل فون سروس بحال کرنے کا فیصلہ ضلعی انتظامیہ کرے گی۔ امن و امان کو پیش نظر رکھتے ہوئے موبائل سروس بحال کرنے کا فیصلہ کیا جائیگا۔ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی موبائل فون سروس بند کئے جانے کا امکان ہے۔ گوجرانوالہ سے نمائندہ خصوصی کے مطابق گوجرانوالہ میں تعینات کئے جانے والے فوجی دستوں کے قیام میں غیر مدت کیلئے توسیع کردی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلع بھر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور فوجی دستوں کو بھی انکے علاقوں کا نظم و نسخ سنبھالنے کیلئے نشاندہی کر دی گئی ہے تاہم ہنگامی صورتحال کے پیش نظر فوجی جوان نشاندہی والے علاقوں میں بلاتاخیر پہنچ کر علاقہ بھر کی نگرانی سنبھال سکیں گے۔ مولانا احمد لدھیانوی اور قاری حنیف جالندھری نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی۔ تینوں رہنماؤں نے سانحہ راولپنڈی پر بات چیت کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ قوم سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہیں، سانحہ راولپنڈی کی ذمہ دار انتظامیہ ہے، احتجاج کے حق میں نہیں۔ تلہ گنگ سے نامہ نگار کے مطابق راولپنڈی کے دینی مدرسہ میں ناخوشگوار واقعہ میں ٹمن سے تعلق رکھنے والے نائب خطیب بیوی اور بچی سمیت لاپتہ ہیں، مدرسہ تعلیم القرآن میں ٹمن کے متعدد طلبا بھی زیر تعلیم تھے۔ صوابی میں لائی جانے والی نعش واپس کردی گئی اور بتایا گیا کہ موضع اُتلہ گدون کا شکر اللہ مقامی مسجد کا پیش امام اور زندہ ہے۔ ہفتہ کو ساڑھے تین بجے گوالمنڈی ریلوے پل کے نیچے اچانک سینکڑوں افراد جمع ہو گئے جو راجہ بازار کی طرف جانا چاہتے تھے۔ اس موقع پر پولیس نے ان کو روکنے کی کوشش کی لیکن پولیس کو زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد فوج کو طلب کیا گیا۔ راولپنڈی میں کرفیو کے نفاذ کے بعد وفاقی دارالحکومت میں بھی نظام زندگی درہم برہم ہو گیا۔ نجی دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین اپنے دفتروں میں نہ پہنچ سکے، پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہوگئی، مارکیٹیں جزوی طور پر کھلی رہیں۔ انٹرمیڈیٹ امتحانات ملتوی کردئیے گئے۔ راولپنڈی میں کرفیو میں نرمی ختم ہونے کے بعد ایک بجے رات کے بعد دوبارہ کرفیو لگا دیا گیا۔ ڈی سی او راولپنڈی کی طرف سے جاری پریس نوٹ کے مطابق 15 نومبر 10 محرم الحرام کو دن ڈیڑھ بجے جب عاشورہ محرم کا جلوس فوارہ چوک راولپنڈی پہنچا تو اس وقت دو مذہبی گروہوں میں تصادم ہو گیا جس کے نتیجے میں 9 قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور 50 افراد زخمی ہوئے۔ اس واقعہ میں مدرسہ تعلیم القرآن کا بیشتر حصہ اور مدینہ مارکیٹ کی متعدد دکانیں نذرآتش کردی گئیں۔ شرپسند عناصر نے شہر میں ہنگاموں اور توڑ پھوڑ کیا، سرکاری و نجی املاک، امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا۔ اب امن و امان کی مجموعی صورتحال مکمل کنٹرول میں ہے۔