وطنِ عزیز میں جب بھی سیاسی بحران جنم لیتے ہیں تو اس صورتحال میں کسی نہ کسی کونے سے آئینِ پاکستان پر بلواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور مسائل کی بنیادی وجوہات پر غور کئے بغیر نظام کی تبدیلی کی بات شروع کر دی جاتی ہے۔ ان دنوں بھی ملک ایک بڑے سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ مسائل کا اصل شکار عوام الناس ہیں کیونکہ ایک طویل عرصہ سے انہیں مہنگائی، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ، بیروزگاری، قانون کی عملداری کے فقدان اور اعلیٰ ترین سطحوں پر ہونے والے بے پناہ کرپشن کے اثرات کا سامنا ہے اور ان کے مسائل کسی طور حل ہوتے نظر نہیں آتے۔ اسی وجہ سے عوام میں شدید بے چینی پھیلی ہوئی ہے مندرجہ بالا مسائل کا اگر آئینِ پاکستان کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ان کی بنیادی وجہ آئین نہیں بلکہ آئین پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل نہ کرنا ہے۔ آئینِ پاکستان 1973ء ہمیں تقریباً تمام مسائل کے حل کی نہ صرف بنیاد فراہم کرتا ہے بلکہ ایک ایسا ماحول بھی پیدا کرتا ہے جس میں عوام ان مسائل سے دوچار نہ ہوں۔ اس حوالے سے آئین میں درجنوں دفعات موجود ہیں۔ ان میں سب سے پہلے قراردادِ مقاصد کا ذکر آتا ہے جو 1985ء سے پہلے تک آئین کے دیباچے کے طور پر درج تھی لیکن بعد ازاں ایک ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 2-A کی شکل میں آئین کا لازمی جزو بن چکی ہے۔ یہ قرارداد آئین کی بنیاد فراہم کرتی ہے اور اس میں مملکت کے بنیادی خدوخال واضح کر دیئے گئے ہیں۔ اس دفعہ کے تحت اس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے۔ یعنی مغربی جمہوریت کے برعکس عوامی نمائندے اور برسرِ اقتدار لوگ عوام کو ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو بھی جوابدہ ہونگے۔ مزید برآں اس شق کے مطابق جمہوریت، آزادی، مساوات، برداشت اور عدل عمرانی کے اصولوں کو جیسا کہ اسلام نے ان کو پیش کیا ہے پوری طرح ملحوظِ خاطر رکھا جائیگا۔ مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیوں کو اسلامی طرزِ زندگی کے مطابق ترتیب دینے کے قابل بنایا جائیگا۔ پاکستان میں جمہوریت ہوگی، بنیادی حقوق کا تحفظ، اقلیتوں کا تحفظ، عدلیہ کی آزادی، تمام شہریوں کے برابر حقوق اور انصاف کی فراہمی اس شق کے بنیادی اصول ہیں۔ مملکت چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ آئین کی شق نمبر1، 2، 2A، 31، 36، 37، 38، 40، 41، 62، 63، 280، 260 ملک میں نظامِ اسلام، اسلامی تعلیمات کا فروغ، مملکت کے اعلیٰ عہدوں پر مسلم افراد کی تعیناتی، اسلامی اقدار کا تحفظ، مسلمان کی مکمل تعریف، عوامی نمائندوں کی اہلیت اور نااہلیت اور نفاذِ اسلام سے متعلق ہیں۔ اس حوالے سے موجودہ حالات میں آرٹیکل 62 اور 63 کا ذکر کرنا مناسب ہو گا جو مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) کے نمائندوں کی اہلیت اور نااہلیت سے متعلق ہیں اور سچے، دیانتدار، خوفِ خدا اور بے داغ ماضی رکھنے والے لوگوں کیلئے ہی پارلیمنٹ کے دروازے کھولتی ہیں۔ الیکشن 2013ء میں امیدواروں کے معیارِ اہلیت کو جانچنے کیلئے ان دو شقوں کے استعمال کا بہت چرچا ہوا لیکن ان پر عملدرآمد نہ کیا گیا اور عملاً یہ دونوں دفعات مذاق بن کر رہ گئیں۔انصاف کی فراہمی کیلئے ملک میں آزاد اور غیرجانبدار عدلیہ موجود ہے جو نہ صرف لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتی ہے بلکہ مختلف اداروں کے درمیان معاملات کو قانون کے مطابق حل کرتی اور آئینِ پاکستان کی تشریح کرتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے خصوصاً پچھلے کچھ سالوں میں بڑے بڑے آئینی تنازعات اور کرپشن کے بڑے بڑے کیسوں میں آزادانہ فیصلے کئے ہیں۔ بلدیاتی ادارے ایک بڑی آئینی ضرورت ہیں۔ بعض آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ بلدیاتی حکومتیں قائم ہونے تک حکومت کی تشکیل مکمل نہیں ہوتی۔ اس لئے بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہونا اورڈسٹرکٹ گورنمنٹس کا قیام نہایت ضروری ہے۔
آخر میں ایک بات عرض کرنا ضروری ہے کہ آئین کوئی جامد چیز نہیں ہوتی۔ عوامی مسائل اور ریاست کی ضروریات کے تحت آئین میں ترامیم کی جا سکتی ہیں۔ ہمارے اپنے آئین میں اب تک 20 ترامیم ہو چکی ہیں۔ چنانچہ آئین میں ترمیم یا ترامیم کرکے اسے ملکی ضروریات سے ہم آہنگ بنایا جا سکتا ہے۔