”زرغیرمبادلہ کے ذخائر“

30 نومبر کو پاکستان پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس ہے اور اس موقع پر جناب آصف زرداری کے سیاسی ویژن اور صاحبزادے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پاکستان اور بیرون پاکستان پارٹی کو تندرست و توانا بنانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کر کے عوام اور خواص کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ....
”عروق مردہ¿ خاکی میں خون زندگی دوڑا“
لیکن اندرون اور بیرون ملک چیئرمین بلاول بھٹو کے جلسے باکس آفس پر فلاپ ہوتے جا رہے ہیں‘ خاص طور پر بلاول بھٹو کو کشمیر کاز کا چیمپئن بنانے کی حرکت میں تو برکت ایک قطرہ بھی نہیں پڑ سکی۔
برمنگھم کا جلسہ؟
خبر ہے کہ ”برطانوی پولیس نے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر‘ پاکستان پیپلزپارٹی کو کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے برمنگھم میں جلسہ کرنے سے روک دیا جس میں دو ہزار سے زیادہ لوگ جمع ہو چکے تھے۔ چنانچہ چیئرمین بلاول بھٹو جلسے سے خطاب نہیں کر سکے۔ چیئرمین بلاول بھٹو کی تقریر سننے کے لئے مختلف شہروں سے آئے ہوئے لوگ ”جئے بھٹو اور جئے بلاول“ کے نعرے لگا کر رخصت ہو گئے۔ اس دوران پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور برطانوی سکیورٹی اہلکاروں میں ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ برطانوی پولیس نے وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید کے بیٹے قاسم مجید سے پوچھ گچھ بھی کی کہ ”جب جلسہ منسوخ ہو گیا تھا تو آپ نے لوگوں کو جمع کیوں کیا۔“
چیئرمین بلاول بھٹو کی پھوپھی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاسی امور کی انچارج محترمہ فریال تالپور نے کہا کہ ”برمنگھم کا جلسہ ایک سازش کے تحت روکا گیا جو کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے تھا۔ خبروں کے مطابق جلسہ گاہ کے باہر مختلف کشمیری تنظیموں کے کارکنوں کی طرف سے ”گو بلاول گو“ ”گو مجید گو“ کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ شاید نعرے لگانے والے بلاول بھٹو اور وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید کو یاد دلا رہے تھے کہ ”جناب آصف زرداری نے تو صدارت پاکستان کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد یہ اعلان کیا تھا کہ ”کیوں نہ مسئلہ کشمیر 30 سال کے لئے منجمد کر دیا جائے؟“ جناب زرداری جب تک صدر پاکستان رہے اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ ”چیئرمین بلاول نے کشمیریوں کی حمایت میں دو بیانات جاری کر کے بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ “
چیئرمین بلاول بھٹو نے تو ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کو بھی وارننگ دی تھی ”انکل الطاف! اگر میرے کارکنوں کو کچھ ہوا تو میں لندن میں آپ کی نیندیں خراب کر دوں گا۔“ فی الحال ایم کیو ایم کے لندن سیکرٹریٹ سے جناب الطاف حسین کی نیندوں کے بارے میں کوئی پریس ریلیز جاری نہیں ہوا۔
حکومتی بے وقوفی سے بننے والے ہیرو
عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد‘ ”دھرنا مآب سیاستدان“ عمران خان کے عاشق زار بن گئے ہیں۔ فرماتے ہیں ”اگر عمران خان نے حکومت کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو میں جنگ کروں گا اور اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو میں پورے ملک میں آگ لگا دوں گا۔ میں خودکش سیاستدان ہوں۔“ لیکن شیخ صاحب نے جوش خطابت میں ایک اردو ضرب المثل کہ ”گھی اگر سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کر کے نکالنا پڑتا ہے۔“ کو دھکا زوری بدل دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ”گھی اگر سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو کنستر کو کاٹنا پڑتا ہے اور کنستر کو کاٹنے والی آریاں ہی انقلاب کی آریاں ہیں۔ “
شیخ رشید احمد نے بتایا تھا کہ ”ہمارا سلک اور دھاگے کا کاروبار ہے۔“ اپنے گھی کے کاروبار کے بارے کبھی نہیں بتایا‘ ورنہ انہیں سیدھی یا ٹیڑھی انگلی سے کنستر یا کسی دوسرے برتن سے گھی نکالنے کا تجربہ ہوتا۔ آری سے کنستر کاٹ کر گھی نکالنے کا رسک تو کوئی پٹھان ہی لے سکتا ہے۔ شیخ نہیں۔ شیخ رشید احمد کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ”میں شیخ ہوں۔ خسارے کا کام کبھی نہیں کرتا۔“ میں ان کے اس بیان کی بنیاد پر لکھ چکا ہوں کہ پھر ”شیخ الاسلام“ علامہ طاہر القادری بھی خسارے کا کام کیوں کرتے ہوںگے؟ عمران خان ”نیا پاکستان“ بنانے کے علمبردار ہیں لیکن علامہ القادری ”انقلاب“ کے داعی ہیں۔ اس لحاظ سے آریوں کی ضرورت تو القادری صاحب کو ہے‘ عمران خان کو نہیں۔ مناسب یہی ہے کہ شیخ صاحب‘ اپنے ممدوح عمران خان کے لئے آریوں کا بندوبست نہ کریں۔ ایک پنجابی ماہیا ہے۔
”آری اتے آری اے
اک جند یوسف دی
سارا مصر وپاری اے“
یہاں ”یوسف“ سے مراد وزیراعظم نوازشریف نہیں ہیں جن کی حکومت کے بارے میں جناب نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ”حکومتی بے وقوفی سے عمران خان اور شیخ رشید ہیرو بننا چاہتے ہیں۔
زرغیر مبادلہ کے ذخائر؟
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ دھرنے دینے والوں نے ملک اور قوم پر بہت ظلم کیا۔ عوام عمران خان اور طاہر القادری کا رویہ کبھی نہیں بھولیں گے“ میاں صاحب نے یہ بھی کہا کہ ”کنٹینر پر کھڑے ہو کر جھوٹ بولنے والے ملک اور قوم سے مخلص نہیں ہو سکتے“ اگر ”کلام الملوک“ کو ملوک الکلام“ سمجھ لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی سیاستدان کنٹینر پر لیٹ کر‘ بیٹھ کر یا اکڑوں بیٹھ کر جھوٹ بولے تو کیا وہ ملک اور قوم سے مخلص ہو سکتا ہے؟ اور وہ سیاستدان جو کہ کنٹینر سے دور کسی اونچے یا نیچے مقام پر کھڑے ہو کر جھوٹ بولے‘ اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟۔ ادھر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید فرماتے ہیں کہ ”وزیراعظم نے عمران خان کو ملاقات کے لئے نہیں بلایا عمران خان نے سفید جھوٹ بولا“
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر عمران خان کالے‘ زرد یا کسی تیسرے رنگ کا جھوٹ بولتے تو پرویز صاحب کو کوئی اعتراض نہ ہوتا؟ مرزا غالب نے اپنے محبوب کے وعدے کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا تھا۔ ....
”تیرے وعدے پر جئے ہم‘ تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے‘ اگر اعتبار ہوتا“
عام انتخابات کے دوران ہر سیاسی جماعت کے قائدین ووٹروں کے دل جیتنے کے لئے آسمان سے تارے توڑ کر لانے اور ارض پاک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے وعدے کرتے ہیں جو پورے نہیں ہوتے لیکن عوام مرنے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ ضرور تلاش کر لیتے ہیں۔ بھوک‘ بیماری اور خودکش حملے سے نہ مر سکیں تو شرم سے ڈوب کر مر جاتے ہیں۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ”شرح سود میں کمی‘ بجلی سبسڈی کے خاتمے اور گیس پرسرچارج لگنے سے مہنگائی مزید بڑھے گی۔ اب سٹیٹ بنک آف پاکستان کے اعلیٰ و ادنیٰ حکام نے سچ کہا ہے یا جھوٹ؟ مہنگائی سے متاثرہ لوگوں کے پاس تو جھوٹ یا سچ جانچنے کا کوئی آلہ ہی نہیں ہوتا۔ اگر مزید مہنگائی کے بڑھنے کی خبر سچ ہے تو وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کو کیا؟ جو آئے دن امارت کی لکیر کو پاﺅں تلے روندنے والوں اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے والوں کا جی خوش کرتے رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جھوٹ بولنے کے لئے لائسنس لینے کی پابندی لگا دی جائے؟ زر غیر مبادلہ کے ذخائر بھی کیوں نہ بڑھائے جائیں؟

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...