میاں شہباز شریف سے ایک تخیلاتی انٹرویو!

٭ میاں صاحب آج مجھے آپ سے کچھ آڑے ترچھے سوالات کرنے ہیں امید ہے کہ you will take them with a pinch of salt؟
ج: آپ تو جانتے ہیں کہ مجھے بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہے۔ ڈاکٹروں نے نمک کھانے سے منع کر رکھا ہے۔ لہذا ایسے سوال ہی نہ پوچھیں جس سے فشار خون میں تیزی کا امکان ہو!
٭ غصہ شیوہ حکمرانی ہے۔ حاکموں نے اسے ناک پر بٹھایا ہوتا ہے لیکن آپ نے اسے ناک پر نہیں بٹھا رکھا بلکہ خون کی طرح یہ آپکی رگوں میں اسپ تازی بن کر دوڑتا ہے؟
ج: صوبے کا نظام چلانا آسان نہیں ہوتا۔ انتظامی امور اہتمام خشک و تر نہیں بلکہ درد جگر ہوتے ہیں۔ نوکر شاہی کے بے لگام گھوڑے کو سرپٹ دوڑانے کے لئے چھمک کا استعمال تو کرنا ہی پڑتا ہے، عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد!
٭ یہ آخری شعر علامہ اقبال کا ہے کیا آپ نے اقبال کو پڑھا ہے یا محض سن رکھا ہے؟
ج: کیا بہادر شاہ ظفر، واجد علی شاہ و دیگر نوابوں نے دربار میں شاعر محض شوکیس میں سجانے کے لئے رکھے ہوئے تھے؟
٭ وہ تو شاہان وقت تھے!
ج: تو کیا میں تمہیں گامو کلیانہ لگتا ہوں؟
٭ آپ کا شعری ذوق قابل رشک ہے۔ تقریروں میں ترنم کا جادو بھی جگاتے ہیں۔ اس کا اعتراف تو بڑے میاں صاحب نے بھی کیا ہے؟
ج: Left handed compliment کا مطلب سمجھتے ہو۔
٭ میاں صاحب کا مطلب تھا کہ ایک ہی شعر کو ہزار بار نہ رگیدیں، عطاء اللہ شاہ بخاری کی طرح اپنی ہر تقریر کو نئے شعروں سے مزین کریں۔ پھر یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ آپکے اردگرد تو ماشاء اللہ شعراء اور ادیبوں کی پوری منڈی ہمہ وقت حاضر رہتی ہے؟
ج: جو بات میں بڑے بھائی صاحب کو احتراماً نہ بتا سکا وہ تمہیں بتانی ضروری ہے۔ شعر وہ ہی موثر ہوتا ہے جو زبانی پڑھا جائے کیا تم چاہتے ہو کہ میں پورا بیاض از سر نو حفظ کروں!
٭ آپ فن تقریر سے تو یقیناً آشنا ہیں لیکن اکثر جو ادبی اور تاریخی حوالے دیتے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔ آپ ایک عرصہ تک اپنے آپکو خادم اعلیٰ کہتے رہے۔ جب آپکی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی گئی کہ خادم کبھی اعلیٰ نہیں ہوتا۔ ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا خدمت گار نہیں گزرا جس کے جلو میں لشکر و سپاہ ہوں اور جو بلٹ پروف گاڑیوں میں سینکڑوں کمانڈوز کی معیت میں سفر کرتا ہو۔ پھر آپ ایک تسلسل کے ساتھ کہتے رہے کہ میں علی بابا چالیس چوروں کو نہیں چھوڑونگا، کسی درباری نے آپ کو نہیں بتایا کہ علی بابا تو ایک مظلوم لکڑہارا تھا اور چالیس چور اسکی جان کے درپے تھے؟
ج: اس غلطی پر میں نے اپنے مشیروں کی کلاس لی تھی۔ اب جبکہ میں نے خادم پنجاب کہلانا شروع کر دیا ہے اور علی بابا کی جگہ ’’زر بابا‘‘ کو دے دی ہے تو پھر گڑے مردے اکھاڑنے کی کیا تُک ہے!
٭ زر بابا سے یاد آیا کہ آپ نے اسے گھسیٹ کر گوالمنڈی کے چوک میں اس کا پیٹ چاک کر کے لوٹی ہوئی دولت نکالنا تھی۔ کیا آپ اپنا وعدہ بھول گئے ہیں یا پھر موقع کی تلاش میں ہیں؟
ج: اسی خوف سے تو وہ دوبئی بھاگ گیا ہے۔ کسی نہ کسی دن کسی نہ کسی نے تو یہ سرجری کرنی ہی ہے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی!
٭ یہ کیسا بکرا ہے جو منمنا نہیں بلکہ ہنہنا رہا ہے۔ آپکے گھر جاتی امرا میں انواع و اقسام کے کھانے کھا کر گیا ہے؟
ج: مہمان نوازی مشرقی روایات کا حصہ ہے۔ گھر آئے ہوئے مہمان کیساتھ مربیانہ سلوک کرنا پڑتا ہے۔
٭ آپ نے اطالوی مصنف میکاولی کی کتاب ’’پرنس‘‘ پڑھی ہے؟
ج: صرف پڑھی نہیں سمجھی بھی ہے۔ ہر بیدار مغز حکمران اسے اپنے تکیے کے نیچے رکھتا ہے!
٭ وہ لکھتا ہے جب تعلق بوجھ بن جائے اور تعارف روگ کی صورت اختیار کر لے تو اس کو اتارنا ضروری ہوجاتا ہے۔ آپکے چند وزراء حکومت کی بدنامی کا باعث بن گئے ہیں بلکہ شاخسانے آپ تک پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ آپ ان سے جان کیوں نہیں چھڑا لیتے؟
ج: شاید اس وقت ایسا قدم اٹھانا درست تھا معروضی حالات کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ ویسے یہ بڑے کائیاں لوگ ہیں۔ کچھ نہ کچھ دستاویزی ثبوت لندن کے لاکروں میں بھی رکھتے ہیں؟
٭ ایک وقت تھا کہ آپ کو نواب کالا باغ سے بہتر ایڈمنسٹریٹر سمجھا جاتا تھا اب کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ حکمرانی کے اس طویل سفر میں آپکے قدم لڑکھڑانے لگے ہیں اور شہرت گہنانا شروع ہو گئی ہے۔ اسکی کیا وجہ ہے؟
ج: یہ حقیقت ہے کہ لوگ ایک چہرے کو طویل عرصہ تک دیکھتے دیکھتے اکتا سے جاتے ہیں کچھ ایسے منصوبے ہوتے ہیں جن کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے۔ حال ان کا پوری طرح ادراک نہیں رکھتا۔ میٹروبس اور اورنج ٹرین اسکی بہترین مثالیں ہیں۔
٭ گویا آپ ایک طرح عصر حاضر کے محمد تغلق ہیں؟
ج: اگر سوال میں چھپی ہوئی شرارت نہ ہوتی تو اسکو درست مان لیتا۔ ویسے محمد تغلق نے جو اقدامات کئے آج انہیں توصیفی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
٭ گویا آپ کو بھی قبولیت کی سند حاصل کرنے کیلئے پانچ سو سال درکار ہیں؟
ج: وقت کو پر لگ گئے ہیں قوم انکے ثمرات عنقریب سمیٹنا شروع کر دے گی؟
٭ انتظامی نا اہلی، بد عملی، کرپشن اور عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے آپ اب تک سینکڑوں افسروں کو معطل کر چکے ہیں۔ کیا اس کیلئے آپ اپنے کو Constructively Liable نہیں سمجھتے اس کو Impaired Judgment بھی کہا جا سکتا ہے۔ بطور ایک بیدار مغز حکمران کے آپ کو اس چیز کا ادراک ہونا چاہیے کہ کون کیا ہے۔ اسکی شہرت کس قسم کی ہے۔ انتظامی امور کا کس قدر تجربہ رکھتا ہے؟
ج: تھیوڑی کی حد تک تو یہ بات درست ہے لیکن عملاً ایسا ممکن نہیں ہے۔ جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو۔ چار سو حرص و ہوس کی ہوائیں چل رہی ہوں۔ذاتی منفعت اجتماعی مفاد پر غالب آ جائے وہاں ایک حد تک احتیاط برتی جا سکتی ہے۔
٭ صاحب اختیار لوگوں کو دو کیفیتوں سے گزرنا پڑتا ہے؛ جلالی اور جمالی، ان میں توازن رکھنے کو Art of Administration کہتے ہیں کیا محسوس نہیں کرتے کہ آپ وہ توازن کھو رہے ہیں؟
ج: Extra Ordinary حالات مخصوص اقدامات کے مقتاضی ہوتے ہیں جو شخص جو زبان سمجھتا ہے اس کو اسی لینگوئج میں سمجھانا پڑتا ہے۔ کبھی شیر شاہ سوری اور ہمایوں کا تقابلی جائزہ لیا ہے؟
٭ گویا آپ خود کو شیر شاہ سوری سمجھتے ہیں؟
ج: اسکی شخصیت کے دو پہلو تھے ؛تعمیری پہلوکی نمائندگی بڑے بھائی صاحب کرتے ہیں،مجھ پر جلالی کیفیت طاری ہوتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...