میاں انور علی ایوب شاہی دور میں مغربی پاکستان کے انسپکٹر جنرل پولیس تھے وجیح جوان اور سوا چھ فٹ قد تھا۔ باکردار اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا گائوں 120گ ب جڑانوالہ میرے گائوں کے قریب تھا۔ ان کے والد انگریز دور میں ڈائریکٹر جنرل پوسٹ آفس رہے۔ وہ میرے والد میاں عبدالباری کو گائوں ملنے آتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں بھی میاں انور علی کو ان کے گائوں ملنے جاتارہا۔ لاہور کے علاوہ گائوں کی حویلی میں بھی ان کی خوبصورت کوٹھی تھی۔ جہاں گارڈز، باورچی اور بیرے ہر وقت مستعد نظر آتے۔ ان کی بیگم بڑی بارعب، سلیقہ شعار، مہذب، اور باوقار خاتون تھیں۔ کافی پڑھی لکھی معلوم ہوتی تھیں۔
میں نے ایک دن میاںانور علی کو فیملی سمیت اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا۔ بعض اوقات میاں صاحب درران گفتگو میرے ساتھ فری ہو جاتے۔ کہنے لگے ’’انسان کی زندگی میں اچھے، برے اوقات آتے ہیں۔ وہ سہتا، برداشت کرتا چلا جاتا ہے جب اس کا لائف پارٹنر ساتھ چھوڑ جائے وہ collapse(اندر سے ٹوٹ پھوٹ جانا) کر جاتا ہے۔ وہ اور بھی دل کی باتیں کر لیتے چند سال بعد میاں صاحب فوت ہو گئے پھر سنا کہ ان کی بیگم یادداشت کھو بیٹھیں اور وفات پا گئیں۔
ایک دن گائوں میں ان کی کوٹھی کے پاس سے گزر ہوا جہاں کبھی باوردی گارڈ اور بیرے چاک و چوبند نظر آتے، وہاں جولاہوں نے تانیاں لگائی ہوئی تھیں۔ دیواروں پر گوبر کے اوپلے چسپاں تھے۔ گند کے ڈھیر لگے تھے۔
محترمہ طیبہ ضیاء کیا خوب لکھتی ہیں ’’ زندگی میں کچھ حادثات ایسے رونما ہو جاتے ہیں جو فولادی اعصاب کو بھی ہلا کر رکھ دیتے ہیں‘‘۔ بڑے لوگوں کے مسائل، مصائب، صدمات بھی بڑے المناک ہوتے ہیں۔ بعض کی المناک یا خوشگوار ازدواجی زندگیاں ان کی تباہی یا فتح و کامرانی کا راز ہوتی ہیں۔
ہیلن آف ٹرائے یونانی بادشاہ کی ملکہ جسے ٹرائے (Troy) کا شہزادہ بھگا لایا تھا سلطنت ٹرائے کی تباہی کا باعث بنی۔ یہ جنگ 10سال تک جاری رہی جس میں ہزاروں مارے گئے۔
جولیس سیزر کا جرنیل اینٹی Antony کلوپٹرا کی محبت میں گرفتار ہوا۔ روم سے بغاوت کر دی، جنگیں ہار گئے۔ دونوں نے خود کشی کر لی۔ مصر پر روم کا قبضہ ہو گیا جو سینکڑوں سالوں تک برقرار رہا۔
ایڈورڈ 8th نے سلطنت برطانیہ پر 326 دن حکومت کی۔ انگلینڈ کے لوگ شہنشاہ سے والہانہ محبت کرتے تھے اس لیے کہ وہ بڑا خوبصورت دلیر اور پاپولر تھا۔ بادشاہ زمانہ شہزادگی میں WALLACE SIMPSON جس نے دوسری شادی رچائی تھی اس کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔ کنگ ایڈورڈ نے WALLACE سے شادی کا اعلان کر دیا۔ پارلیمنٹ نے اس کی اجازت نہ دی۔ اس پر اسے تخت و تاج چھوڑنا پڑا۔ ملکہ نے ایڈورڈ کوجو اب ڈیوک آف ونڈسر بن چکا تھا ملک بدر کر دیا جو مرنے تک اپنی محبوبہ کے ساتھ فرانس میں رہا۔ اس نے گائوں کونڈے میں رہائش اختیار کر لی۔ کرسمس کے دن تھے انگلینڈ میں بچے گاتے رہ گئے۔
’’آسماں پر فرشتے گا رہے ہیں
سمپسن ہمارا بادشاہ چرا لے گئی‘‘
اس صدمے کو ساری سلطنت برطانیہ میں محسوس کیا گیا۔ اگست 1972ء موت کے بعد ڈیوک آف ونڈسر کی میت کو واپس لندن لانے کی اجازت ملی۔ جسے سینٹ جارج ونڈسر چرچل میں دفن کر دیا گیا اور جنازے میں 57,903 انگریزوں نے شرکت کی۔ ڈچزسمپسن کو پہلی دفعہ پرنس چارلس اور لارڈ مائونٹ بیٹن نے خوش آمدید کہا۔ وہ اپنے خاوند کے تابوت کے پاس 8منٹ کھڑی رہی۔ اسے ایک رات بکنگھم پیلس میں رہنے کی اجازت ملی۔ پھر وہ فرانس اپنے گھر چلی گئی۔ وہ بہت بیماری کی حالت میں فوت ہوئی۔ اس کے بیڈ ٹیبل پر ڈیوک کے ہاتھ سے لکھا ہوا فریم میں شعر پڑا تھا۔
’’میرے دوست تمہارے ساتھ اکیلے رہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تیری قربت میرے لیے تاج و تخت اور عصائے شاہی سے بہت بہتر ہے‘‘
ذوالفقار علی بھٹو نے نصرت بھٹو دوسری شادی کی تھی۔ راقم نے ان دونوں کا عروج وزوال دیکھا ہے چونکہ میں ان دنوں نیشنل اسمبلی کا ممبر تھا۔ مجھے ان دونوں کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اقتدار اور جیل میں دونوں کے درمیان تعاون، لگائو اور چاہت کا رشتہ قائم رہا۔ موصوفہ حوصلہ مند اور بااخلاق خاتون تھیں لیکن تقدیر نے یاوری نہ کی۔ ان دونوں کو ایسے حادثات پیش آئے جو فولادی اعصاب کو بھی ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ بیگم صاحبہ کے سامنے خاوند کو پھانسی اور دونوں بیٹے قتل ہوئے اور باقی عمر ملک بدری اور قید تنہائی میں گزاری۔ محترمہ نے بہت دکھ سہے لیکن نہ اپنی فیملی، نہ عوام کے کسی فرد کو دکھ دیا، نہ کسی کے لیے ذہنی کوفت کا باعث بنی۔
عمران خان اور ریحام خان کی طلاق کی خبروں نے شاک ویوز waves بن کر ملک میں ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا ۔ اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔
حالات نے عمران خان کو نیشنل لیڈر بنا دیا ہے اب انہیں جوش و جذبات کی بجائے ہوش و عقل سے کام لینا چاہیے۔ بڑے فیصلے ذاتی ہوں یا قومی جلد بازی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کتنے بڑے لوگوں کے فوری اور جذباتی فیصلے ان کی تباہی کا باعث بنے لیکن حادثات جو تقدیر میں لکھے ہوں وہ ہو کر رہتے ہیں۔ ضرب المثل ہے۔
"Accidents will happen in the best regulated families".
یعنی ’’حادثات منظم ترین گھرانوں میں بھی ہو جاتے ہیں‘‘